ویسے تو دنیا میں پہلی دفعہ شطرنج کے ایک نوجوان تیرہ سالہ امریکی کھلاڑی فشر نے انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اپنی ڈبل عمر سے بھی زیادہ روسی ورلڈ چیمپئن کو ہرانے سے بہت مشہور ہوئے اور زبان زد عام ہوئے اور اس کے بعد ، بڑی طاقتوں کی رسہ کشی بھی ایک طرح کی سیاسی شطرنج کا نام پکڑتی گئی، حتی کے امریکہ میں کارٹر دور کے ایک سابق وزیر خارجہ ، بریزینسکی نے تو اپنی کتاب کا نام ہی ، گرینڈ چیس بورڈ ان ورلڈ پالیکٹس رکھ دیا۔ یہ کتاب سیاسی حلقوں میں کسنجر جیسے سکالر کی لکھی گئی کتابوں سے بھی زیادمشہور ہوئی یقین کریں مجھے تو یہ سیاسی پیشین گوئیوں کی کتاب زیادہ اور تجزیاتی کتاب کچھ کم ہی لگی ۔ یہ الگ بات ، کہ اس میں لکھے گئے اندازے حرف بہ حرف پورے ثابت ہوئے۔ انیس سو ستانوے میں لکھی گئی اس کتاب میں جب افغانستان میںوار آن ٹیرر کاذکر ہوتا ، وہیں اس کتاب میں صاف لکھا گیا کہ آئندہ اگلی چند دہائیوں میں یو ریشیا میںمشرق وسطیٰ، پاکستان، انڈیا ، افغانستان، رومانیہ، ایران ، عراق، ازبکستان ، ترکماستان، آزربائیجان جیسے اکثر ممالک میں بد امنی جڑ پکڑے گی اور پھی یہی ہوا کہ اوپر بیان کئے گئے ممالک ، میں کبھی دھماکے، کبھی خانہ جنگی، کبھی نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات دیکھنے کو ملے۔
اس کتاب میں بعد میں دہشت گردی کی جنگ سے لے کر عراق ، ایران بشمول تمام اوپر بیان کئے گئے علاقے جومل کر معدنی ذخائر ، تیل ، وغیرہ کی دنیا میں کثیر حصہ کے مالک تھے اور روس اور امریکہ کو نکال کر تیل و قدرتی وسائل کے ستر فیصد سے بھی جائز کے قدرتی طور پر جغرافیائی مالک تھے ۔ آج یہی، لیبیا اور عراق کے تیل والے علاقوں بشمول شام ، یمن اور سعودیہ کے تمام ذخائر مغربی یا نام نہاد جمہوری حکومتوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ان علاقوں میں نئی حد بندیاں ہو رہی ہیں اور تمام بڑے ممالک خاموش تماش بین کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ، حالانکہ انہی ممالک نے ایسی سیاسی شطرنج بچھائی ہے ؒ جس کو کبھی نیو ورلڈ آرڈر ، کبھی جمی کارٹر کے بنیادی حقوق کا نعرہ، اور کبھی ریگن کی سٹاروارز پر کثیر رقم خرچ کرنے کے اعلان شامل تھے۔ اس کو صدر نکسن کے دور میں روس کے ساتھ ویتانت کا ڈول ڈالا گیا اور اندر ہی اندر چین اور امریکہ ،روس کے خلاف ایک دوسرے کے شطرنج کے مجبوری غیر فطری مہرے اور حلیف کھلاڑی بن گئے۔ جمہوریت کے نام پر ، کئی مملکتوں کے تختے الٹے گئے ،جبکہ چینی ، کورین آمریت اب بھی ٹیکنالوجی کی طاقت کے بل بوتے پر امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سینہ تان کر کھڑے ہیں۔
لیکن داد دینا پڑے گی اوباما کے آخری سٹیٹ آف یونین ایڈریس کی ، جس میں جنوری دو ہزار سترہ میں اس نے ملکوں کے نام لے کر صاف کہہ دیا کہ ابھی چند دہائیوں تک ، مشرق وسطی، ایشیا، افریقہ میں بدامنی اور خون ریزی کی فضا اوردھماکے جاری رہیں گے ، یعنی سیاسی شطرنج کی بساط پر بچھائے گئے مہرے جن کا ذکر بریزنسکی کی بیسویں صدی کی آخری دہائی میں سیاسی شطرنج کی کتاب میں ذکر ہے،جبکہ اس وقت اگرچہ پاکستان میں ہر طرف نہیں لیکن بہر حال امن ضرور تھا ان دنوں مسٹر کلنٹن کا یہ کہنا کہ پاکستان کی حالت افغانستان سے بھی بری ہونے والی ہے ، اس وقت راقم کو کچھ سمجھ نہ آئی لیکن دوہزار ایک کے بعد اوباما کی پیشن گوئی کو شامل کر تے ہوئے ، تو ، دوستو، دو ہزار پچاس تک تو بھئی ہمارا علاقہ بھی امن سے شاید ابھی دور ہی رہنے والا ہے۔ ایسے ہی خادم کی نظر سے امریکہ کی کچھ خفیہ آڈیو ذ گفتگو جو کہ اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ کسنجر اور صدر امریکی رچرڈنکسن سننے کو ملیں،جو کہ انیس سو ا کہتر کے ہلچل کے سالوں پر محیط ہیںاور آپ کو شاید یاد ہو کہ مسٹر کسنجر کی اس دور کے دوران پوری کتاب اس عنوان پہ ہے ’’ا یئرز آف اپہیول‘‘ (Years of Upreaval) پڑھنے کو ملیں ، تو دنیا کے مختلف رہنمائوں کے ایک دوسرے کے بارے میں تاثرات اورامریکی صدر نکسن نے اندرا گاندھی کے بارے میں ذاتی طنز، تبصرے اور جائزے عجیب و غریب ذاتی کمنٹس، سیاسی اشاریئے پڑھنے کا موقع ملا ، ان تبصروں سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ ان تمام بین الاقوامی مسائل میں صرف اور صرف اپنے مفادات کاحصول اور وسائل پر قبضہ ہی ان بڑی طاقتوںکی پہلی اور آخری ترجیح نظر آتی ہے نہ کہ کوئی اخلاقی یا جمہوری اقدار کی پاسداری یا محروم لوگوں کے لئے خلوص سے کوئی قدم اٹھانا ۔ آج کے دنیا کے تمام حالات بڑی طاقتوں کی ماضی کی سیا سی شطرنج پر چلائی گئی چالوں کے نتائج نظر آتے ہیں۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
………………(جاری ہے)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38