کروناتیزی سے پھیل رہا،معیشت ،تجارت پرسنگین اثرات،کاروباری طبقہ ہراساں ہوچکا
اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان میں کرونا وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے ،اس کے معیشت،ملک کی درآمد وبرامد، سرمایہ کاری،روز گار اور اندرون ملک تجارت پر سنگین اثرات مرتب ہونے کا خدشہ بڑھناشروع ہو چکا ہے ،ملک کو کاروباری طبقہ جس میں صنعت کار ،مینو فیکچرر،رسل ورسائل، ہول سیل اور پرچون فروشی بھی شامل ہے ،ہراساں ہو چکا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ باہر سے مال نہیں آ رہا ،جو آچکا ہے وہ بندر گاہوں پر پڑا ہے ،ان کے گودام تیار شدہ مال سے بھر گئے ،اور جو سامان مارکیٹ جا چکا تھا اس کی سیل بند ہونے کے باعث لیکیوڈیٹی ہر گذرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے،حکومت نے بجلی کے کمرشل بلز کی ادائیگی پر کوئی ریلف نہیں دیا،ری فنڈ کے اجراء کی بات ہو رہی مگر تاحال کوئی تیزی نہیںہے ،ان حالات میں ان کے پاس کوئی راستہ موجود نہیں جس میں وہ کام کو برقرار رکھنے کی امید کر سکیں،معیشت کے متعلق ادارے جن میں پائیڈ شامل ہے ، کرونا وبا کے معاشی اثرات پر کام کر رہے ہیں ، بے روز گاری کے حوالے سے کہا جا رہا ہے ملک میں 3.86 فی صد بیس لائن بے روزگاری کی شرح پہلے سے موجود ہے،وبا کے ہلکے اثرات کی صورت میں بیس لائن بے روزگاری میں 0.21فی صد،درمیانے اثرات کی صورت میں0.62فی صد اور شدید اثرات کی صورت میں بے روز گاری میں 0.62فی صد کا اضافہ ہو گا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ بے روز گاروں کی تعداد میں4.48ملین کا اضافہ ہو سکتا ہے ،جبکہ غریبوں کی تعداد میں 75ملین سے 125ملین افراد کو اضافہ ہو سکتا ہے ،اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بی آئی ایس پی کی انرولمینٹ میں مذید5.5ملین کو اضافہ کیا جائے ،اسٹیٹ بینک کے مطابق ریٹیل ہول سیل سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 19فیصد ہے۔ ملک میں ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ سے زائد چھوٹی بڑی دکانیں ہیں، جن سے کروڑوں افراد براہ راست یا بلواسطہ اپنا روز گار کماتے ہیں،دکانیں بن پڑی ہیں، ان دکانوں اور گوداموں میں لاکھوں روپے مالیت کا سامان پڑا ہوا ہے مگر چونکہ یہ مال فروخت نہیں ہورہا اس لیے ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے نقد رقم ختم ہوتی جارہی ہے۔ چھوٹا دکاندار یومیہ رولنگ پر چلتا ہے۔ یومیہ لاکھوں کا سامان خریدتا اور فروخت کرکے اپنا کمیشن نکال لیتا ہے۔ لیکن اب اس بندش سے صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ جو لوگ مشکل وقت میں راشن وغیرہ تقسیم کیا کرتے تھے وہ لوگ بھی اب محتاج ہوتے جارہے ہیں۔دکانداروں کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دکانوں کا کرایہ اور یوٹیلیٹز کی ادائیگیوں سے متعلق لاحق ہے،بندرگاہوں پر موجود ان کنٹینرز کا یومیہ ڈیمرج اور ڈیٹنشن چارج بھی بڑھ رہا ہے ، شپنگ کمپنیاں ایک کنٹینر پر یومیہ 24 ہزار روپے ڈیٹنشن وصول کررہی ہیں جس کی ادائیگی غیر ملکی کرنسی میں کرنا ہوتی ہے۔تحقیقی اداروں کا کہنا ہے کہ حکومت بندر گاہوں کے حوالے سے بھی پیکج لائے ،اسی طرح بجلی اور گیس کے کمرشل بلز کو موخر کیا جائے ورنہ معاشی کساد بازاری کے نقصانات جی ڈی پی کے ڈیڑھ فی صد سے اڑھائی فی صد تک جائیں گے۔