وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کہتے ہیں کہ چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آٹے کی قلت بھی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے آٹے کی قلت اور چینی کی قیمتوں میں اضافے پر تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
وفاقی وزیر تعلیم کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ابھی تک اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر قابو اور بلاتعطل فراہمی کے حوالے سے ابھی تک مناسب اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت ابھی تک اس شعبے میں بہتری کے لیے حکمت عملی ہی تیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مختلف اوقات میں مصلحت سے کام لیے جانے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج آٹا اور چینی جیسی بنیادی چیزیں بھی حکومت کے قابو میں نہیں ہیں۔ شفقت محمود پہلے وزیر نہیں ہیں جنہوں نے آٹا اور چینی کی قیمتوں میں اضافے پر ناکامی کا اعتراف کیا ہے ان سے پہلے بھی وفاقی حکومت میں شامل دیگر وزراء اس اہم ترین شعبے میں متعلقہ افراد کی ناکامی اور اس حوالے سے حکومت پر آنے والے عوامی دباؤ کا اعتراف کر چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے عملی طور پر کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ جب بحران پیدا ہو رہا تھا اس وقت وفاقی و صوبائی حکومتوں میں متعلقہ وزارتیں کیا کر رہی تھیں جب قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اس وقت حکومتی سطح پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا گیا۔ یہ سراسر متعلقہ وزارتوں کی غفلت ہے۔ انہیں صفحات پر حکومت کو یہ بتایا گیا کہ چینی کم نہیں آٹا کم ہو جائے گا پھر سارے پاکستان نے دیکھا کہ آٹا کم ہوا، انہی صفحات پر حکومت کو بتایا گیا کہ چینی کی قیمت کب کب بڑھ سکتی ہے اور بڑھتے بڑھتے کہاں تک جا سکتی ہے قارئین کو یاد ہو گا کہ یہ ساری تجاویز اور ممکنہ بحران اور قیمتوں میں اضافے بارے حکومت کو بروقت آگاہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود کسی نے کوئی بات نہیں سنی۔ وزیراعظم مہنگائی میں کمی اور عام آدمی کی زندگی میں آسانی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یوٹیلیٹی اسٹورز کے زریعے مہنگائی کم کرنے اور عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ وہاں جانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہر وقت یوٹیلیٹی اسٹورز کو سبسڈی دینا مسئلے کا حل تھا نہ اس سے ملک بھر میں عام آدمی کو بلا تفریق فائدہ دیا جا سکتا ہے۔
حکومت کی بنیادی ذمہ داری عام آدمی کو کھانے پینے کی اشیاء کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اس سلسلہ میں کوئی کوتاہہ مجرمانہ غفلت سمجھی جائے گی کیونکہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں کوتاہی کے تباہ کن نتائج سامنے آتے ہیں آج بھی حکومت کرونا وائرس کے شدید خوف کے باوجود کرفیو یا لاک ڈاؤن میں بہت زیادہ سختی اسی لیے نہیں کر رہی کی یومیہ اجرت پر کام کرنے والا طبقہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس طبقے کی مشکلات کے پیش نظر لاک ڈاؤن میں سختی نہیں کی جا رہی۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے بھی سب سے زیادہ یہی طبقہ متاثر ہوتا ہے اگر کھانے پینے کی چیزیں کمزور طبقے کی پہنچ سے ہی باہر نکل جائیں تو ان کے لیے لاک ڈاؤن ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر ان چیزوں کی مناسب قیمتوں پر فراہمی کو یقینی بنانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ وزراء کی طرف سے قیمتوں میں اضافے کا اعتراف ایک طرف بے بسی کا اظہار ہے تو دوسری طرف ایسے بیانات انتظامی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر آٹا اور چینی بحران تحقیقاتی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی حکومت محکمہ خوراک کے حوالے سے اپنے کام کرنے کے انداز، طریقہ کار پر نظر ثانی کرتی ہے یا نہیں۔
وفاقی کابینہ میں ہونے والے رد و بدل کو سیاسی حلقوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی وزیراعظم کے ان اقدامات کو شدید الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کا کردار اس لحاظ سے نہایت شاندار ہے کہ جب دیگر سیاای جماعتیں سیاسی کاموں میں مصروف ہیں وہیں جماعت اسلامی کرونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہونے والے غریبوں کی مدد کرنے میں سب سے نمایاں ہے ان کا یہ کردار سیاسی کردار سے کہیں بڑھ کر ہے اور حقیقی معنوں میں ملک و قوم کی خدمت ہے۔ جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اصغر کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے اپنے قریب ترین جہانگیر ترین کو سوشل ڈسٹنسنگ کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم کرونا وائرس سے نجات تک نافذ العمل رہے گا۔ اس کا مطلب پولیٹیکل ڈسٹنسنگ نہیں ہے۔ یہ عارضی انتظام موسم بدلنے تک کے لیے ہے تبدیلی اور رد و بدل میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ تبدیلی و رد و بدل کے اس دور میں سمیع اللہ چودھری نے استعفیٰ دیکر نئی مثال قائم کی ہے وہ حقیقی معنوں میں ایک سیاسی کارکن ہے اس کیس میں ان کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی ہے۔ سمیع اللہ چودھری کو جنوبی پنجاب محاذ میں اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ وہ ایک خالص سیاسی کارکن ہیں۔ سمیع اللہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو ان کا وزیر ہونا پسند نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ وڈیروں اور جاگیرداروں کو ایک عام سیاسی کارکن کا وزیر ہونا پسند نہیں اس مسئلے پر تفصیلی حقائق پر بھی آپ کے سامنے لائے جائیں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب محاذ کے قائدین علاقے کے محروم عوام کو ان کا حق دلانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ان کے پاس بہترین وقت تھا کہ وہ معاہدے اور وعدے کے مطابق پی ٹی آئی کے ساتھ آگے بڑھتے اور جنوبی پنجاب کو اس کا حق دلاتے لیکن حصول اقتدار کے بعد روایتی طرز سیاست، عوامی مسائل کو نظر انداز کرنا، انتخابی وعدوں کو اہمیت نہ دینا اور عوام کی نبض کو نہ سمجھنے سے ایک بڑے مقصد کے لیے قائم کیا گیا محاذ روایتی محاذ بن کر موسم کے ساتھ ہی بدل گیا ہے۔
وفاقی کابینہ میں رد و بدل کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر مافیا کے خلاف لڑنے، مرکز اور پنجاب میں مزید تبدیلیوں کا اشارہ دیا ہے۔ آٹا چینی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد عمران خان کو یہ فیصلہ تو کرنا ہے کہ سزا اور جزا کا معیار و نظام کیا ہونا چاہیے اگر کوئی آپ کے ساتھ ہے اور قصوروار ہے تو اس کو بھی ویسی ہی سخت سزا ملنی چاہیے۔ عوام کو رد و بدل نہیں نہیں اپنے مجرم کی تلاش ہے اور اس تلاش میں وزیراعظم سے زیادہ مدد کوئی نہیں کر سکتا۔ اگر وزیراعظم مرکز اور پنجاب میں مزید تبدیلیاں نہیں کرتے تو وہ ایک روایتی سیاست دان ہی سمجھیں جائیں گے۔ انہیں پاکستان تحریک انصاف کے منشور، انتخابی نعروں اور وعدوں پر عمل کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے نئے پاکستان اور دو نہیں ایک پاکستان کی حقیقی تصویر عوام کے سامنے رکھنا ہو گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024