کیا ہم قوم بن سکیں گے؟
72سال ہوگئے پاکستان کو بنے تیسری نسل جوان ہو چکی ہے مگر ہم آج بھی رنگ و نسل مذہب اور مسلک اور علاقائی ،لسانی اور دیگر تعصبات سے باہر نہ نکل سکے ۔سوچنے کی بات ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ چین جیسا ملک جو 1949میں مازوئے تنگ چوائن لائی اور دیگر رہنماوں کے ذریعے انقلاب کے نتیجے میں سابقہ نظام سے آزاد ہوا آج دنیا کی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے کس طرح دنیا میں امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں کھڑا ہے ہر لحاظ سے ۔ایک ہم ہیں کہ اپنی صورت سی لی ہے بگاڑ؟بدقسمتی سے پاکستان کے وہ زعماء جن میں قائد اعظم ،لیاقت علی خان اور ایسے ہی کئی دیگر شامل تھے جلد ہی دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہماری کشتی بھنور میں پھنس گئی کہیں سیاسی چالبازیاں تو کہیں سول اور ملٹری بیوروکریسی کی سیاسی اور غیر سیاسی مداخلتیں اور مفادات اور اختیارات کی جنگ جو بدقسمتی سے آج بھی جاری ہے اور عام شہری معاشی ، سماجی اور سیاسی الجھنوں کا شکار ہے۔ نہ تعلیم کی کوئی صورت نہ ہی علاج معالجہ اور نہ ہی روز گار کی سہولت ۔زراعت میں کام کرنے والے اور زراعت کے متعلق عام افراد گزارہ کر رہے ہیں ۔رہے کارخانوں اور دیگر اداروں کے ملازمین وہ کبھی صاحب زندہ ہیں ۔کارخانہ دار اور بڑے زمیندار ،سرمایہ دار اور سرمایہ کار دن بدن اربوں کھربوں میں پہنچ چکے اور ان کے بھائی بند سیاست کار اور سول اور ملٹری بیوروکریسی ایک طرف وہ بھی خاصی آسودہ حال ہوگئی تو دوسری طرف مالی اور انتظامی کرپشن نے اداروں کی رہی سہی کسر پوری کر دی اور سرکاری ملازم کسی کے سامنے جوابدہ نہیں عوام کو وہ اپنا غلام اور ماتحت سمجھتا ہے اگر کسی کو شک ہے تو کسی بھی سرکاری ادارے میں جاکر تجربہ کر لے۔محکمہ مال کے پٹواری اور پولیس کے سپاہی سے لیکر ٹیکس انسپکٹر کے اولیٰ اہلکار اور FBRکے چھوٹے ملازمین غرضیکہ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے ایک سیلاب ہے لاقانونیت اور بدنظمی کا جو رکنے کو نہیں آرہا ۔سیاسی لیڈر یوں محسوس ہوتا ہے کہ قومی مفاد کو کسی صورت ترجیح دینے کو تیار نہیں گویا کہ وقت کے فرعون اور شداد اور قارون ہیں ۔نہ ظلم سے باز آرہے ہیں نہ جبر سے اور نہ ہی لوٹ مار سے آخر کب ان کو سبق سیکھنا ہے۔مال اسباب تو بہت بنا لیا کاش پاکستان عوام کو ایک قوم ہی بنا دیتے جھوٹا موٹا اخلاقی بندھن سماجی بہتری اور سیاسی سوجھ بوجھ ۔کچھ
اخلاص اور باہمی ربط مگر ہم نے تو گھر کی دیواروں کو ڈھانے کی ٹھانی ہوئی ہے ۔آجکل دنیا کو Virus Corona D 19نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اب تک 70ہزار افراد کو موت ہو چکی ہے سب سے زیادہ اٹلی ،فرانس ،برطانیہ اور امریکہ متاثر ہوا جبکہ چین کے شہر ووہان سے آغاز ہوا مگر وہاں چین میں ساڑھے تین ہزار اموات ہوئی اب چین دنیا بھر میں میڈیکل سامان بھیج رہا ہے جس میں Mask،خاص لباس اور سانس کے آلات شامل ہیں ۔چین میں کارخانے اور فیکٹریاں اور دیگر ادارے کافی حد تک کام میں مصروف ہوگئے ہیں اور ڈالروں کی بارش ہورہی ہے وہاں ایک بار پھر چند ماہ میں ہی انہوںنے سنبھال لیا گو کہ حیران کن ہے مگر Virusاور اسکی Vaccineپر مختلف خبریں ہیں Researchکے حوالہ سے ۔پاکستان میں بھی یہ کام جاری ہے ہم بھی ان معاملات میں خود انحصاری کی طرف سفر شروع کر لیں جو مشکل نہیں بالکل مگر Will to doکی ضرورت ہے جو شاید کمزور ترین شکل میں پاکستان میں ہے ۔فوجی اور سول حکومتوں نے پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کر دیا اور ہم آج 100ارب ڈالر سے زائد کے مقروض ہیں اور 50%غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔کوئی پاکستان معیشت تو کوئی قومی دفاع کا نعرہ لگاتا ہے کیا کوئی قوم تعلیم ،صحت اور روزگار کے مناسب اہتمام کے بغیر اپنا دفاع کر سکتی ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اپنی اپنی ڈفلی بجانے کی بجائے اس بات پر غور و فکر اور عمل کی ضرورت ہے کہ پاکستان عوام کو ایک قوم کے لیے بنایا جائے اوراس کو مختلف گروہی اور دیگر تعصبات سے کیسے نکالا جائے اور اسکی تربیت کیسے کی جائے ۔یہ کام سیاسی جماعتیں اور سماجی ادارے تو دوسری طرف سرکاری ادارے اپنے سربراہان کے ذریعے Role Modelsکی ضرورت ہے ہر شعبہ میں ہمیں مثبت تنقید برداشت کرنے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے جو اہم کردار ادا کرتی ہے قومی سمت کے تعین اور فکر و عمل میں۔ بدقسمتی سے 72سال میں نہ سول اور نہ فوجی حکمران اس سلسلے میں فکری وسعت کو پروان چڑھا سکے کیا اس سے زیر زمین نفرتیں اور سازشیں جنم نہیں لیتی ۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس قدر فطرتی اظہاررائے کو دبایا گیا حالات خرابی کی نذر ہوگے پاکستا ن میں ایوب خان،یحیٰی خان ،ضیاالحق ،بھٹو ،پرویز مشرف ،نواز شریف اور زرداری ادوار اسکی زندہ مثالیں ہیں ۔کیا 1971کاسانحہ اور اس پر غور نہ کرنا ہماری تاریخ کا حصہ نہیں ۔ایران میں اما م خمینی انقلاب اور 1990میں USSRکی شکست و ریخت اہم مثالیں ہیں ۔آج بھی پاکستان میں قومی یکجہتی کا فقدان اور بہت سے ذمہ داران خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔پاکستان میں Virusنے اب تک 45سے زائد جانیں لے لیں ۔2000سے زائد افراد متاثر ہو چکے اور سلسلہ جاری ہے اللہ سے بہتری کی دعا کا وقت ہے ۔حکومتی سطح پر Lock downدوہفتے سے جاری ہے اور فی الحال 14اپریل تک رہے گا ۔حکومتی پروگرام کہ کس طرح عام شہریوں کی مدد کی جائے ابھی ڈیٹا جمع ہو رہا ہے وہی DCوہی تحصیلدار اور MNA/MPAبدقسمتی سے کوئی موثر سلسلہ نظر نہیں آرہا سڑکوں پر روز مرہ مزدوری کرنے والے افراد اور بچے اور خواتین نظر آرہے ہیں جو دال روٹی کے منتظر ہیں۔پاکستان میں انفرادی طور پر ہر مشکل وقت میں لوگ مدد کرتے ہیں اور کر رہے ہیں 2005کا زلزلہ ہویا 1965کی پاک بھارت جنگ سیلاب ہو یا کوئی اور آفت لوگ اور بعض غیر سرکاری ادارے مدد شروع کر دیتے ہیں ۔آجکل وائرس کی وجہ سے جہاں کارخانے اور ٹرانسپورٹ حتیٰ ریسٹورنٹ اور دیگر کاروبار ٹھپ ہے الخدمت فاؤنڈیشن ،سیلانی فاؤنڈیشن اور سینکڑوں ادارے ضرورت مند لوگوں کو کھانا اور ضروری سامان مہیا کر رہے ہیں ۔سندھ ،KPK،پنجاب ،بلوچستان اور مرکز بھی اپنا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں ۔
عمران خان نے ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا ہے اور 4لاکھ کے قریب رجسٹر ہوگئے ہیں ۔حالات کا تقاضا تھا فوری طور پر ملک کی مساجد کو ایک ربط میں لاکر انکی کمیٹیوں سے علاقے کے ضرورت مند لوگوں کا Dataلیکر کر نادرہ کے حوالہ کر دیا جاتا جو لوگ BISPاور احساس میں موجود ہیں ان کو نکال کر باقی کو 12000روپے تقسیم کر دیئے جاتے اس سلسلہ
میں نگرانی کے لیے MNAوغیرہ اور یونین کونسل کے نمائندے مساجد میں Monitorکر لیتے ۔اس سلسلہ میں دیر مزید مسائل کا سبب بنے گی حکومت کو غور کرنا چاہیے۔رہا معاملہ Tigersکا تو یہ کئی مسائل کا سبب بن سکتاہے ان کی ٹریننگ اور ان پر کنٹرول اور سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کی آپس میں مداخلت اور ناراضگی ۔ہمارے ہاں اداروں کی کمی نہیں مگر جو ہیں ان میں ربط نہیں اور یہ آج کا معاملہ امداد فوری عمل درآمد کا متقاضی ہے جو ہو نہیں رہا ۔ویسے بھی آٹے چینی کی کم یابی اور ذخیری اندوزی اور مہنگائی نے عام آدمی کے مسائل میں خاصا اضافہ کر دیا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ مفلوج ہو چکی ہے یا پھر اپنے فرائض میں کوتاہی اور نااہلی کی مرتکب ہورہی ہے یہ کردار کا عکس خاص کر پچھلے
30سال میں خاصاگہرا اور نمایا ں ہو چکا کیونکہ کرپشن کے علاوہ سیاسی رنگ نے بھی اپنا کام کر دکھایا ہے شاید اسی وجہ سے عمران حکومت مشکلات کا مزید شکار ہو رہی ہے ۔آج ہی آٹے اور چینی کے حوالہ سے FIAکے واجد ضیاء نے جو رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو ارسال کی تھی وہ قوم کے سامنے آگئی ہے اور اس سلسلے میں جو عناصر آٹے اور چینی کی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی اور Subsidyکے حوالہ سے Relevantاور ملوث تھے وہ ایک طرف تو خوش آئند ہے کہ حکومتیں اصل حقائق کو چھپانے اور قوم کو اندھیرے میں رکھنے کی لمبی تاریخ رکھتی ہیں۔آج تک نہ حمودالرحمن کمیشن نہ نیوز لیکس رپورٹ اور نہ کچھ اور ہر بااثر ادارے اور افراد نے قوم کو اندھیرے میں رکھا اور پاکبازی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں ۔اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آج ہم نہ معاشی طور پر نہ سیاسی طور پر نہ ہم سماجی طور پر انتشار اور بدنظمی کا شکار ہوتے اور قومی یکجہتی سوالیہ نشان نہ بنتی ہم ایک قوم ہوتے اور فخر بھی کرتے اور کوئی شخص یا گروہ قومی مفاد پر ڈاکہ نہ ڈالتا ۔
عمران خان نے یقیناآٹا اور چینی رپورٹ کو شائع کر کے مشکل مگر درست اقدام کیا اور ساتھ ہی کمیشن کا اعلان کر دیا تاکہ Forensic Auditبھی ہوجائے 25اپریل تک ۔مختلف سمت سے دباؤ تو آیا ہی ہوگا اور آئندہ بھی ہو سکتا ہے یہ بات تو پہلے سے زبان زدعام ہے کہ جہانگیر ترین خسرو بختیار ،نواز شریف خاندان ،مونس الہی وغیرہ ۔چوہدری منیر اور دیگر اس مافیا کا حصہ ہیں جو ملک میں خوراک کی قلت ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کا سبب بنتے ہیں اور پھر Subsidyکی شکل میں اربوں روپے بھی حاصل کرتے ہیں ۔یہی حال ہمارے کارخانہ داروں کا بھی ہے مراعات لو ،قرض لواور پھر معاف کرادو ۔ان دنوں جو اعلان ہوا کہ شہریوں کی مشکلات اور کمزور معاشی صورت حال کے سبب کارخانوں میں احتیاط کے ساتھ کام کی اجازت دی جارہی ہے تو ان کی تنظیموں نے اعلان کر دیا ہے کی ٹیکس میں مزید مراعات دیں وگرنہ نہیں کھولیں گے یہ ہے ہماری صورت حال کہ ایک آفت قوم پر آئی ہوئی ہے لوگ بھوک اور افلاک کا شکار معیشت کمزور بے روزگاری کی انتہا اور یہ مزاج ہے امیر زادوں اورسرمایہ کاروں کا ۔کیا یہ رویہ کسی قوم کے آسودہ حال لوگوں کا ہوتا ہے ۔
بل گیٹس اور ایسے کئی لوگ اپنے اور دنیا کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔اپنے ہاں ایک عام شہری مرحوم ایدھی نے جو کام کیا اور جو ہو رہا ہے اس سے ہی سبق سیکھ لیں ۔ان سے توقع کرنا کہ وہ اپنے ملازمین کو اس دوران فارغ نہیں کریں گے یا پھر ان کو تنخواہ دیں گے عبث ہے ۔
حکومت کو اس سلسلے میں Boldاقدامات کرنے
ہونگے ۔کیونکہ ہمارے ہاں ہر شعبہ کو مافیاز نے اپنے گرد اب میں لیا ہوا ہے وقت ہے کہ سیاسی Repercussionsکو بالائے طاق رکھ کر عمران حکومت اقدامات کرے اور جو افراد ملوث ہیں قومی جرم میں اگر خود اپنے عہدوں سے دستبردار نہیں ہوتے تو ان کو فارغ کر دیا جائے یہ تاریخی لمحہ ہے تاریخی فیصلے کرنے کا ۔عمران خان قائداعظم کا مطالعہ کرو اور فکر و عمل کی دنیا کے ہیرو بن جاؤ یہ وقت کا تقاضا ہے ۔مایوسی نہیں حوصلہ کا پیغام ۔قوم نے آپ کو قومی مفادات کا امین بنایا ہے ۔اتحاد۔تنظیم ۔یقین محکم پر عمل پیرا ہوجائیں یہ منزل کا نشان بھی ہے اور حصول کا ذریعہ بھی!