پوسٹ فرانزک رپورٹ کا نتیجہ …عوام بے چین
پاکستانی عوام کورونا وائرس کی مہلک ترین وبا کی خطرناک تباہیوں سے ابھی پوری طرح سے سنبھلنے ہی نہیں پائے تھے کہ اچانک ملک میں سرکاری میڈیا کے ذریعہ سامنے ا?نے والی ایف آئی اے کی ایک تحقیقاتی رپورٹ نے سراسیمگی اور پھیلادی،یاد ہوگا قارئین کو کہ اس ہی برس ماہ فروری میں آٹے اورچینی کا شدید بحران پیدا ہوا تھا آٹا ناپید اور چینی کے نرخوں نے آسمان جا چھوا تھا ہم نے آپ نے اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کو لگاتار ملکی شہروں کے یوٹیلیٹی اسٹوروں کے دورے کرتے دیکھا حکومت نے عوام تک چینی اورآٹا پہنچانے کے لئے اربوں روپے کی سبسڈی کااعلان کیا جو چینی ملز کے مالکان تک پہنچائی گئی ان سب کے باوجود اْن دنوں چینی کے دام کم نہیں ہوئے اربوں روپے کی سبسڈی بھی ’’بڑے بڑوں‘‘نے ڈکار لی اور چینی کی خریداری کی آڑ میں عوام کو دن دھاڑے کنگال کردیا گیا جس پر جب وزیراعظم خان نے نوٹس لیا اْنہیں پتہ چلا کہ چینی اورآٹے کے کاروباری طبقات نے پلک جھپکتے ہی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے تو ایف آئی اے کے سربراہ کی نگرانی میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا جس کمیشن نے بلا سیاسی امتیاز کسی کو خاطر میں لاتے ہوئے چند دنوں میں اپنی اہم رپورٹ گزشتہ دنوں وزیراعظم خان کو پیش کردی جس میں کئی ممتاز کاروباری سیاست دان اس رپورٹ میں شامل بتائے گئے ہیں، جن کا تعلق حکومتی جماعت کے سینئر ارکان میں ہے اْن کے نام سامنے آئے ہیں اب یہ رپورٹ فرانزک مرحل میں ہے، جس کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کسی صورت میں ملکی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے اور اْنہیں ضرور نشان عبرت بنایا جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی سیاست کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سیاست کی آڑ میں کاروباری طبقہ کے خلاف قائم تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ اتنی سرعت سے عوام تک پہنچائی گئی ہو جس رپورٹ میں حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی اعلیٰ عہدوں کے افراد شامل ہوں عوام منتظر ہیں وہ جان چاہتے ہیں کہ فرانزک رپورٹ کب تک سامنے آتی ہے عوام کو یہ بھی امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان کسی صورت بھی’’دوپاکستان‘‘ کے تصور کو تقویت دیں گے’’حکومتی زعماوں کا الگ پاکستان‘‘ اور’’عام پاکستانیوں کا الگ پاکستان‘‘اگرایسا ہوا تو یہ انتہائی بدقسمتی کا مقام ہوگا کیونکہ پاکستانی جمہوری سیاست میں اکثر یہی وطیرہ رہا ہے کہ ہر نئی حکومت دو طرح کے وعدوں کے ساتھ اقتدار سنبھالتی رہی ایک وعدہ عام لوگوں سے کیا جاتا ، جبکہ ’’خواص‘‘ سے دوسری نوعیت کا خفیہ وعدہ ہوتا تھا،عوام الناس سے کیے جانے والے عام وعدوں میں بہتر معیار زندگی،بے روزگاری میں کمی،تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی جیسے’’وعدے‘‘ شامل ہوتے،جبکہ ’’ خصوصی وعدے‘‘ اپنے ہم عصر سیاستدانوں سے انفرادی اور گروہی سطح پر کیے جاتے، یہ وعدے حکومتی پارٹی کی حمایت کے صلے میں سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کیلئے انفرادی مراعات اور ان کے انتخابی حلقوں میں ان کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے ترقیاتی کاموں کی آڑ میں مخلتف طریقوں سے اْنہیں ہرقسم کے فوائد پہنچانے کے لئے کیئے جاتے،چینی اور آٹے کے منافع خورسیاست دانوں اور اعلیٰ عہدوں پر براجمان بیوروکریٹوں کو نشان عبرت بنانے کے منتظر عوام فرانزک رپورٹ سامنے آنے کے بعد یقینا اب نہیں سوچیں گے تو اْنہیں کب سمجھ آئے گی
گزشتہ دنوں فیس بک پر وائرل یہ پوسٹ ہماری نظروں سے گزری تو یقین جانئیے بحیثیت پاکستانی ووٹر ہمیں بڑی ندامت ہوئی کہ ’’کیا ہم اتنے بیوقوف ہیں؟ کہ ہم خود اپنے ہی اختیار کو استعمال کرکے اپنی جان ومال کے دشمنوں کو اپنی سرزمین سے کھلی غداری کرمرتکب لوگوں کے ہاتھوں میں اپنی باگیں تھاما دیتے ہیں ایک صاحب نے کیسی طنزیہ پوسٹ کی تھی ایک سیاسی حکمران خاندان کے اعلیٰ فرد کی تصویر کے نیچے یہ کیپشن لگایا گیا تھا’’لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ ’’میں مقبوضہ کشمیر پرکیسے بات کرسکتا ہوں؟‘‘میں کیسے لوگوں کو سمجھاوں’’بھارت جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ،دہشت گردی کی پشت پناہی کرتا رہا ہے، میں اس کے بارے میں لب کشائی کیسے کرسکتا ہوں؟ ‘‘بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے پیچھے نئی دہلی کے علاوہ اور کون ہے؟ کوئی اور نہیں انڈیا ہی ہے لیکن میں یہ بات کھلے عام نہیں کہہ سکتا‘‘ممبئی حملے کی ذمہ داری آپ نے دیکھا نہیں میں نے کیسے قبول کرلی تھی،انڈیا پاکستان کے حصہ کا پانی بند کرکے پاکستان کو بالخصوص شمالی پنجاب اورپاکستانی پنجاب کے میدانی علاقہ کو بنجر بنانے کے منصوبہ پر کب سے عمل پیرا ہے میں بخوبی آگاہ ہوں لیکن اس پر ایک لفظ میں خود کیسے بول سکتا ہوں؟آخر میری مجبوری لوگ کیوں نہیں سمجھتے، جناب میرا سرحد پاروہاں اربوں کا کاروبارہے اب میں اپنا کاروبار بچاوں یا پاکستانی ’’بیوقوف‘‘ووٹرز کے قومی مفادات کو دیکھتا پھروں ہے نا اْن کی یہ کتنی بے تکی سوچ‘‘ اب تو قوم بڑی بے چینی سے منتظر ہے کہ’’پوسٹ فرانزک رپورٹ‘‘ملک کے جمہوری سسٹم میں کیسی تبدیلی آتی ہے آتی بھی ہے یانہیں؟لیکن یہ لکھ لیں کہ ’’قوم پرست وطن پرست لیڈر‘‘اپنے اقتدار کو اپنے کاروبار کی بھینٹ نہیں چڑھاتا کامیاب وکامران تاریخ سازلیڈر مورثی سیاست پر یقین نہیں رکھتا اپنی نیک نیت سیاست کی ساکھ کو بچانے کے لئے وہ اقتدار کی کرسی کو لات ماردیتا ہے بے لوث اور جرات مند سیاسی لیڈر کی تعریف بتانے والوں کا یہ ماننا ہے کہ ایسے ہر سچے لیڈر کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اس کے سیاست سے آئوٹ ہونیکا صحیح وقت کیا ہے جو لیڈر قوم پرست وطن پرست ہو گا وہ اقتدار کو اپنا کاروبارکبھی نہیں بنائے گا نہ ہی اپنے خاندان کے افراد کو اپنے قریبی دوست احباب کو کبھی اہم حکومتی عہدوں پر فائز کرئے گا،اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ صرف ملکی خزانے کو لوٹنے آیا ہے‘تاریخ کے مطابق ایسا شخص نہ تو رہبر ہوتا ہے نہ ہی عوام کی جان و مال کا بلکہ ریاست کے وقار اور تحفظ کا اس کوذرا برابراحساس ہوتا ہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے واشگاف انتخابی وعدوں کی گونج تادم تحریر پاکستانی فضاوں میں موجود ہے اْن کی ذات سے پاکستانی عوام نے یہ توقع لگائی ہوئی ہے جو بے جا نہیں وزیراعظم عمران خان اْس منزل تک پہنچ چکے ہیں جب وہ اگر چاہئیں تو اْنہیں کوئی روک نہیں سکتا وہ جانتے ہیں اْنہیں ملکی سیاسی نظام حکومت میں پائے جانے والے ’’ناممکن العمل جمہوری الجھنوں‘‘کے اْس گورکھ دھندے کی طرف فی الفور دھیان دینا ہی پڑے گا یہ کیسا جمہوری سیاسی نظام ہے جس میں تعلیم وشعور کی بنیادی ضروریات کا خانہ درج ہی نہیں ہے؟ ہم یہ کیسے مان لیں کہ ’’جمہوریت اَن پڑھ اورعقل سے پیدل جاہلوں‘‘کا متبادل نام ہے ؟ جبھی تومنظم ’’نوکرشاہی‘‘کے اشاروں پر ملک میں ہر پانچ برس بعد ’’جمہوری کٹھ پتلیوں‘‘کا تماشا لگتا رہتا ہے یہ سلسلہ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں اب رکنا چاہیئے اور اس کی جگہ لائق وفائق اعلیٰ تعلیم سے بہر مند ہر شعبہ ہائے زندگی کے مہارانہ سیاسی ومعاشی صلاحیتوں سے لیس جمہوری سسٹم کو آئندہ ہمیشہ کے لئے اس ملک ِخداداد پاکستان کا مقدر بن جانا چاہیئے۔