دنیا کا ہر ملک اپنی قو می زبان کا احترام کرتے ہوئے اسے سرکاری حیثیت دیتا ہے اور اس کا سارا تعلیمی نصاب اور سرکاری ریکارڈ بھی اپنی مادری وقومی زبان میں پرنٹ کیا جاتا ہے تاکہ شہریوں کو پڑھنے سمجھنے میں آسانی ہو معروف لائبریریوں میں آج بھی دنیا کی قدیم ترین زبانوں پر مشتمل مجموعے موجود ہیں جنہیں اس دور کی قوموں نے اپنی شان سمجھتے ہوئے محفوظ کیا تاہم بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہماری قومی زبان اردواور سرکاری زبان انگریزی ہے جس سے ہماری غلامانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے دوسری طرف ملک میں دیگر کئی زبانیں بولی جاتی ہیں جنہیں سرکاری سطح پر قبول نہیں کیا جاتا پاکستان کا تعلیمی نصاب اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں پڑھایا جاتا ہے سرکاری سطح پر قومی زبان کی پذیرائی نہ ہونے کے باعث ہماری قوم گوں مگوں کا شکار ہے ایک خاص طبقہ اردو بولنے کو اچھا نہیں سمجھتا اور انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتا ہے متوسط طبقہ اسے اپنی احساس محرومی سمجھتے ہوئے خاص طبقے کی پیروی کرتے ہوئے انگریزی بولنے کو تر جیح دیتا ہے اور دیکھا دیکھی یہ بیماری پھیلی جا رہی ہے 72برس گزرنے کے بعد بھی قومی زبان سرکاری سر پر ستی سے محروم ہے جسکی وجہ ہم خود ہیں ہم نے انگریزی زبان کو ہی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا ہے آج کسی کو اردو نہیں آتی تو وہ فخر سے بتاتا ہے جبکہ انگریزی نہ آنا شرمندگی کی علامت سمجھی جاتی ہے حالانکہ اردو زبان عالمی زبان ہے اور یہ دنیا کی کئی جامعات میں پڑھائی جارہی ہے جن میں چین، ترکی، جرمنی شامل ہیں اور کئی دوسرے ممالک میں اس پر کا م ہورہا ہے لیکن ہمارے یہاں اپنی قومی زبان کے فروغ کے لئے کوئی کام نہیں ہورہا ۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کو فروغ دیں تاکہ یہ زبان زندہ رہے اور ترقی کرے مگر پاکستان میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔…عبد الوہاب، کراچی
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024