مافیا کے خلاف اعلان جنگ سے غریب کو ریلیف تک
کیا وزیر اعظم عمران خان صاحب خود احتسابی کی اعلی مثال قائم کر سکیں گے۔ پچھلے دنوں جس آٹے چینی کے مصنوعی بحران کا سامنا قوم کو کرنا پڑا جس کی تحقیقات کرنے کے لئے وزیر اعظم کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے جس میں تحریک انصاف کے سینئر رہنماء حکومتی اتحادی سمیت مختلف سیاسی شخصیت کا نام سامنا آرہا ہے پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی حکومتیں اس تمام مصنوعی بحران کی مرتکب قرار دی جارہی ہیں۔اب دیکھنا یہ کہ وزیر اعظم غریب عوام کو تکلیف پہنچانے والوں کے ساتھ کیا سلوک اختیار کرتے ہیں یوٹرن لیتے ہیں یا خود احتسابی کے عمل کو اپناتے ہوئے ان عناصر کو سزا دلوانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔پچھلے سال گنے کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے چینی کی قلت کے خدشے کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومتی ذمہ داروں کی جانب سے برآمد کی اجازت برآمد پر سبسڈی دینے اور مصنوعی قلت کی بنیاد پر چینی کی فی کلو قیمت بیس روپے تک بڑھائی گئی جس سے شوگر مالکان نے اربوں روپے کا ناجائز منافع کمایا ۔اس کرپشن نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی یہ ناجائز طریقہ یقینا کوئی پہلی بار نہیں اپنایا گیا ہر دور میں ہر حکومت میں ایسے عناصر موجود رہتے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات پر عوامی مسائل کو قربان کرتے رہے ہیںلیکن موجود ہ حکومت جو کرپشن کے خاتمے اور ریاست مدینہ کی سوچ لے کر اقتدار پر براجمان ہوئی ہے اس کی سربراہی میں ا تنے بڑے پیمانے پر کرپشن ممکن نہیں تھی۔اسی طرز کا ایک اوراسکینڈل فارن فنڈنگ کیس بھی ہے جس نے تحریک انصاف کے کرپشن فری پاکستان کے نعرے کو مشکوک بنایا ہوا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح وزیر اعظم نے گندم چینی کے بحران پر تحقیقات کرتے ہوئے رپورٹ منظر عام پر لانے میں کردار ادا کیا اسی طرح خان صاحب فارن فنڈنگ کیس کی رپورٹ کو بھی منظر عام پر لائیں تاکہ اس کیس کے ذمہ داروں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکے یقینا اس وقت ملک وبائی آفت کی زد میں مبتلا ہے یہ وقت سیاست تنقید کا نہیں ہے۔ البتہ اگر کرپشن کے ان کیسوں کو حالات کی بھینٹ چڑا گیا تو خان صاحب جو کرپشن فری پاکستان کی بنیاد پر اقتدار میں آئے ہیں وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اس وقت خان صاحب کو آٹا چینی کے مصنوعی بحران پیدا کرنے والے ذمہ داروں کے خلاف فوری ایکشن لینا ہوگا جو اقتدار اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر کھڑا ہے اس کی پروا کئے بغیر کرپشن کرنے والوں کو مہنگائی کے ذمہ داروں کو ان کے انجام تک پہنچانا وزیر اعظم کی اب اولین ذمہ داری ہے ۔یقینا ہر جماعت میں کرپٹ عناصر کا ٹولہ آج بھی موجود ہے جو اس رپورٹ پر سیاست کرنے کے لئے بے چین ہورہا ہوگا مگر یہاں خان صاحب کو اس رپورٹ پر سیاست نہیں انصاف کرنے کی اشد ضرور ت ہے تاکہ مخالفین اور خاص کر عوام میں پیغام جائے کہ تحریک انصاف کی قیادت کرپشن پر کسی کو بھی NRO نہیں دے گی۔ساتھ ہی ہم یہاں وزیر اعظم کی توجہ اس جانب بھی دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ گذشتہ دنوں تعمیرات کے حوالے سے جس پیکج کاا علان کر کے کالا دھن ناجائز ذرائع سے بنانے والوں کو جو ایمنسٹی دی گئی اس پر نظر ثانی فرمائیں اس پیکج سے غریب عوام کو کسی صورت فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا ۔اگر غریب عوام کو آپ کوئی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تو ان کو باعزت روزگار کی فراہمی دی جائے ریلیف پیکیج کو سیاسی نمائش کے لئے استعمال نہ کیا جائے مستحق افراد کا پنشن ڈیٹا وفاق کے پاس موجود ہے نادر کے پاس ۲۲ کروڑ عوام کا ڈیٹا موجود ہے کون مستحق ہے اس ڈیٹا سے باآسانی پتہ لگایا جاسکتا ہے خدارا اس وبائی آفت پر جس میں غریب لوگ بیماری کے ساتھ ساتھ بھوک سے تنگ ہیں ان کا مزید مذاق نہ بنایا جائے ہم نے عبادت گاہوں کو بند کر کے لوگوں کو ٹی وی کے سامنے جمع کر دیا ہے اب لوگ عبادت چھوڑ کر ٹی وی پر چلنے والے بے حیائی کے پروگرام دیکھ رہے ہیں ہم اس وبائی آفت کی گھڑی میں اللہ سے مزید دور یاں پیدا کر رہے ہیں جو یقینا ہمارے لئے مسائل کا سبب بنے گی وزیر اعظم ریاست مدینہ کا کو ئی درست تصور پیش کریں
کرپشن کا خاتمہ اُس وقت ہی ممکن ہے جب احتساب کا عمل آپکی اپنی ذات سے شروع ہو سزا کا درست تعین ذاتی انا سے ہٹ کر کیجائے ۔ساتھ ایک بار پھر آپکی توجہ اس جانب دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت آپکے پاس پنشن سے چلنے والے گھروں کا ڈیٹا موجود ہے جس کے لئے آپکو ٹائیگر فورس کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح نادر کے پاس بھی کچی آبادیوں میں رہنے والوں کا ڈیٹا موجود ہے جس سے مستحقین کی نشاندہی با آسانی کی جاسکتی ہے اور ان کو فوری ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے ملک بھر کے پوسٹ آفس کو امدادی ریلیف کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اگر حکومت اس وبائی آفت کی گھڑی میںعوام کی مدد اور کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہے تو فوری درست اقدامات اُٹھانے ہونگے ۔