ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد وزیراعظم عمران خان کا سخت ایکشن۔ وفاقی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ
آٹا اور چینی کے بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے فوری کارروائی کی ہے۔ اس سلسلہ میں پہلے مرحلے میں وفاقی کابینہ میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی گئی ہے‘ بعض وزراء کے قلمدان تبدیل کر دیئے گئے اور بعض نئے وزراء کا تقرر کیا گیا ہے جبکہ بعض مشیروں اور معاونین خصوصی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک و تحقیق خسرو بختیار کا قلمدان تبدیل کرکے انہیں اقتصادی امور کا وزیر بنا دیا ہے اور انکی جگہ سیدفخرامام کو وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک و تحقیق بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح عبدالرزاق دائود کو مشیر برائے صنعت و پیداوار اور شوگر ایڈوائزری بورڈ کے منصب سے فارغ کردیا گیا ہے تاہم انہیں مشیر تجارت و سرمایہ کاری کے عہدے پر برقرار رکھا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم نے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی کا وفاقی وزارت سے استعفیٰ منظور کرکے انکی جگہ ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کرلیا ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر حماداظہر کو اقتصادی امور کی جگہ وزارت صنعت کا قلمدان دیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر بابر اعوان کو وزیراعظم کا مشیر برائے پارلیمانی امور بنا دیا گیا ہے اور وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی کو نارکوٹکس کنٹرول کا قلمدان دیا گیا ہے۔
مزید براں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ محمد شہزاد ارباب کو انکے منصب سے فارغ کردیا گیا ہے جبکہ وفاقی سیکرٹری برائے خوراک و تحقیق ہاشم پوپلزئی کو ہٹا کر انکی جگہ عمرحمید کو تعینات کیا گیا ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کو آٹا چینی بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ سامنے آنے پر چیئرمین ٹاسک فورس برائے زراعت کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور انکوائری کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ان کیخلاف مزید کارروائی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ دوسری جانب گندم بحران پر پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا ہے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے سمیع اللہ چودھری کا استعفیٰ اور کمشنر ڈی جی خان نسیم صادق کی انکے منصب سے علیحدہ کرنے کی درخواست منظور کرلی ہے۔ اسی طرح سابق ڈائریکٹر فوڈ ظفراقبال کو بھی سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کرپشن فری سوسائٹی اور نئے پاکستان کا جو ایجنڈا لے کر میدان سیاست میں آئے تھے اس پر وہ قومی سیاسی قائد کی حیثیت سے اپنے اپوزیشن کے دور میں بھی کاربند رہے اور اقتدار میں آکر بھی انہوں نے اپنے اس ایجنڈا کو ہی آگے بڑھایا۔ جب میاں نوازشریف کے دور حکومت میں پانامہ لیکس منظرعام پر آئیں جن میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے میاں نوازشریف اور انکے خاندان کے دیگر ارکان کے نام بھی شامل تھے تو عمران خان نے حکمران خاندان کے احتساب کا علم اٹھایا اور بالآخر انکی اس تحریک کے نتیجہ میں میاں نوازشریف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار پا کر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوگئے جبکہ احتساب عدالت نے انہیں‘ انکی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو قید و جرمانہ کی سزائیں بھی سنا دیں۔ عمران خان کی اسی تحریک کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے متعدد قائدین بھی احتساب کے شکنجے میں ہیں جبکہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اور عمران خان کے معتمد ساتھی جہانگیر ترین بھی کرپشن فری سوسائٹی کی اسی تحریک کے نتیجہ میں احتساب کی زد میں آئے اور اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار پا کر پارٹی عہدے سے بھی فارغ ہوئے۔ اسی طرح حکمران تحریک انصاف کے سینئر رہنما علیم خان بھی احتساب کی زد میں آئے اور وزیراعظم عمران خان نے شفاف اور کڑے احتساب کی خاطر اپنے پارٹی عہدیداروں اور ارکان کے معاملہ میں بھی مکمل غیرجانبداری سے کام لیا۔ انکی حکومت کے آغاز ہی میں جب انکی کابینہ کے رکن اعظم سواتی کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک ذاتی نوعیت کا کیس دائر ہوا تو عمران خان نے بلاتوقف انہیں وزارت کے منصب سے فارغ کر دیا۔ اس طرح انہوں نے بے لاگ احتساب کیلئے اپنی پارٹی کے اندر بھی مثال قائم کی۔
جب گزشتہ سال ملک میں آٹے اور چینی کا بحران پیدا ہوا تو وزیراعظم نے خود اس کا نوٹس لے کر معاملہ تحقیقات اور ذمہ داروں کیخلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا جسے انکے مخالفین بالخصوص اپوزیشن لیڈران نے محض سیاست برائے سیاست سے تعبیر کیا مگر ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نے جس جرأت مندی کے ساتھ اور بے لاگ انداز میں آٹے‘ چینی بحران کے ذمہ داروں کیخلاف فوری ایکشن لیا ہے وہ کرپشن فری سوسائٹی کیلئے انکی کمٹمنٹ کا عملی اظہار ہے۔ اس اقدام پر انکی پارٹی کی صفوں میں بھی اضطراب اور خلفشار کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ جہانگیر ترین‘ خسرو بختیار اور سمیع اللہ چودھری اپنے خلاف ہونیوالی انتظامی کارروائی پر ردعمل کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار اس معاملہ میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں جبکہ وزیراعظم نے 25؍ اپریل کو فرانزک رپورٹ سامنے آنے کے بعد اسکی روشنی میں جہانگیر ترین اور دیگر متعلقین کیخلاف مزید کارروائی کا عندیہ بھی دے دیا ہے جو اس امر کا عکاس ہے کہ وہ کرپشن فری سوسائٹی کیلئے اپنے اصولوں پر کوئی مفاہمت کرینگے نہ کسی سے بلیک میل ہونگے۔ اس تناظر میں وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق ترجمان شہبازگل کا یہ تجزیہ درست ہے کہ عمران خان قوم کیلئے اللہ کی نعمت ہیں اور یہ وقت بتائے گا کہ انکی حکومت پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہوگا۔ یقیناً ماضی میں ایسے بے لاگ احتساب کی کم ہی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں جس میں حکومتی عہدیداران بھی اپنے پارٹی قائد کے ہاتھوں بے رحم احتساب کی زد میں آئے ہوں۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے بے لاگ احتساب کی بلاشبہ ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جس سے جہاں قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کی سوچ رکھنے والے دوسرے عناصر کو کڑے احتساب کا خوف لاحق ہوگا وہیں کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جائیگا۔ اس سے ملک میں سماجی اور اقتصادی انقلاب کی راہ ہموار ہوگی اور ملک شاہراہ ترقی پر گامزن ہو جائیگا۔