بدھ ‘ 14 ؍ شعبان 1441ھ‘ 8 ؍ اپریل 2020ء
چیئرمین سینٹ کی جرمن چانسلر، اٹلی اور سپین کے وزراء اعظم کو کرونا کیخلاف معاونت کی پیشکش ۔
ابھی تک ہم پوری طرح اپنے ملک میں کرونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے تو ان حالات میں چیئرمین سینٹ کی طرف سے جرمنی ، سپین اور اٹلی کی حکومتوں کے سربراہوں کو کرونا کیخلاف معاونت کی پیش کش خاصی اچنبھے والی بات ہے۔ اس پر تو بے ساختہ انہیں …؎
ہم کو اپنی خبر نہیں یارو
تم زمانے کی بات کرتے ہو
کہنے کو جی چاہ رہا ہے۔ اگر زمانے کی بجائے کرونا بھی پڑھا جائے تو شعر کا مزہ دوبالا ہو سکتا ہے۔ ایک طرف ہماری یہ حالت ہے کہ ہم کرونا سے بچائو کے لیے حفاظتی سامان اور ادویات دوسرے ملکوں سے مانگتے پھرتے ہیں۔ دوسری طرف ہم حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے دوسروں کو معاونت کی پیشکش کر رہے ہیں جبکہ ہمارے اپنے ملک میں کرونا سے نمٹنے کے لیے نہ تو پورے ہسپتال ہیں نہ ادویات نہ ڈاکٹر نا نرسنگ سٹاف اس طرح ہم ایسی پیشکش کر کے خود اپنی ہنسی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ممالک ہمارے حالات سے بے خبر نہیں۔ بے شک وہ شکریہ بھی ادا کرینگے مگر اسکے ساتھ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان حکومت خود اپنے ملک میں کرونا پر قابو پانے کے لیے پورے اقدامات کیوں نہیںکر رہی ۔مشہور مثال ہے ’’اول خویش بعد درویش‘‘ مگر ہمارے ہاں الٹا ہوتا نظر آ رہا ہے ، اپنے سنبھالے نہیں جاتے ہم دوسروں کی مدد کو دوڑ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
سندھ حکومت نے 6 ہزارروپے زکوۃ فی خاندان تقسیم کئے ہیں۔ سعید غنی
وزیر تعلیم سندھ کا یہ بیان اچھل اچھل کر حکومت سندھ کی موجودہ حالات میں بہتر کارکردگی کا ثبوت دے رہا ہے۔ خدا کرے یہ کارکردگی برقرار رہے۔ حکومت سندھ اسی طرح عوام کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں۔ عوام کی خدمت کرنے کا ہے۔ کرونا کی وجہ سے پورے ملک میں رونا دھونا مچا ہوا ہے۔ سندھ میں بھی یہ وائرس تیزی سے پھیلا اور خوف کے پنجے گاڑ گیا۔ ہم نہیں کہہ رہے وفاقی وزراء تک کھل کر وزیر اعلیٰ سندھ کو شاباش دے رہے ہیں کہ انہوں نے فوری طور پر اس مرض کا اندازہ لگایا اور حفاظتی اقدامات شروع کر دئیے۔ باقی صوبوں کی طرف سے ایسے اقدامات بعدمیں سامنے آئے۔ مگر دیر آید درست آید اب اگر دیگر صوبائی حکومتیں بھی سندھ کی طرح فوری طور پر زکوۃ کی تقسیم کا آغاز کر دیں اور جلد از جلد مستحقین تک یہ رقم پہنچائیں تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہو گا۔ یہ کوئی کمال یا احسان نہیں ہو گا۔ حکومت زکوۃ بھی عوام کے پیسوں سے کاٹتی ہے او اب وہی زکوۃ اگر مستحقین پر ہی خرچ ہو گی تو زیادہ بہتر ہے ورنہ ہمارے ہاں ہزاروں امرا، سرکاری ملازمین اور ان کی اولادیں اسی زکوۃ کی رقم پر عیش کررہے ہیں۔ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بس ان کو ذرا پیسوں کی کمی لاحق ہو گی جس کی کسر وہ بعدمیں نکال لیں گے۔
٭٭٭٭٭
امریکہ میں ایک شیرنی کو بھی کرونا ہو گیا
حضرت انسان ابھی تک کرونا سے نجات کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں اس سے نجات کے لیے سائنسدان کام کر رہے ہیں۔ مگر کہیں بھی جائے امان نہیں مل رہی۔ پوری دنیا کرونا کی ایک لاٹھی سے ہانکی جا رہی ہے۔ یوں مساوات انسانی کی خطرناک شکل ہمارے سامنے ہے۔ نہ دوائیں کام آ رہی ہیں نہ حفاظتی تدابیر موثر ثابت ہو رہی ہیں۔ لے دے کر اب دعائوں کا ہی سہارا رہ جاتا ہے۔ سو اس پر سب عمل کر رہے ہیں۔ ہنوز وہ بھی بے اثر لگ رہی ہیں۔ انسان دھڑا دھڑ کرونا سے مر رہے ہیں متاثر ہو رہے ہیں۔ چلیں انسانوں کو بچانے کی بے شمار راہیں بھی کھل رہی ہیں۔ مگر یہ جواب امریکہ میں جہاں سب سے زیادہ انسان کرونا سے متاثر ہیں۔ اب چڑیا گھر کی ایک شیرنی میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے وہ ایک الگ مصیبت نہ بن جائے۔ اطلاع کے مطابق اس شیرنی کے رشتہ داروں میں بھی نزلہ زکام اور فلو کے اثرات پائے گئے ہیں۔ اس سے قبل کئی برس ہوئے دنیا بھر کے جنگلات میں چڑیا گھروں میں جب جانوروں میں ’’انتھراکس‘‘ کی وباء پھیلی تھی تو بڑی تباہی مچی تھی۔ اب کہیں انسانوں کیساتھ جانور بھی کرونا کا شکار نہ ہونے لگیں۔ ویسے ہر شر میں سے خیر ضرور برآمد ہوتا ہے۔ اب یورپ اور امریکہ والے جو ویسے ہی انسانوں سے زیادہ جانوروں کی قدر کرتے ہیں اب تیزی اور تندہی سے کرونا کا توڑ نکالنے میں جت جائیں گے اور پھر کیا معلوم قدرت کو خود ان معصوم بے زبان جانوروں پر ترس آ جائے اور ان کی بدولت عالم انسانیت کو بھی کرونا سے نجات مل جائے۔
٭٭٭٭٭
حیدر آباد: مستحقین کے لیے راشن لے جانے والا ٹرک لوٹ لیا گیا
اس وقت ایک طرف ہزاروں افراد کرونا لاک ڈائون کی وجہ سے بیروزگار ہونے والے گھرانوں کی مدد میں جتے ہوئے ہیں ، اپنی اپنی بساط کے مطابق گھر گھر راشن پہنچانے کی انفرادی اور اجتماعی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ لوگ واقعی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یہ لوگ بے شک خیر کے نمائندے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی شر کے نمائندے بھی ہر جگہ بدی کی قوتوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ اس وقت جب انسان کو انسان سے دور رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے یہ ڈاکو، چور قاتل اور درندے لوٹ مار، قتل و غارت اور زیادتیوں کی کارروائیوں میںمصروف ہیں۔ جرائم کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ یہ بدکار لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے۔ دنیا بھر میں آلودگی کم ہو رہی ہے۔ برائیاں کم ہو رہی ہیں۔ شور کم ہو رہا ہے ، مگر ہمارے ہاں برائیوں پر کوئی روک ٹوک نہیں لگ سکی لگتا ہے ہمارا خمیر ہی انہی مکروہات سے اٹھا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی دیکھ لیں تاجر اور دکاندار انسانیت کو تڑپتا بلکتا اور مرتا دیکھ کر بھی غریبوں کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہو رہے۔ من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی کے پیٹی بھائی چور اور ڈاکو بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے۔ اب حیدر آباد یں دیکھ لیں غریبوں میں تقسیم کے لیے راشن لے جانے والے ٹرک کو ان حرام خوروں نے راستے میں روک کر لوٹ لیا۔ دنیا بھر میں ایسی انسان دوستی کی مثال شاید ہی کہیں اور مل سکے گی۔ ان لٹیروں نے بھی یہی سوچ کر واردات کی ہو گی کہ جب حکومت اور انتظامیہ مارکیٹوں اور دکانوں میں بیٹھے لٹیروں کو جو کھلم کھلا وارداتیں کر رہے ہیں روک نہیں سکتی پکڑ نہیں سکتی تو ان نامعلوم لٹیروں کو کون پکڑ سکے گا۔