کرونا نے عالمی سطح پر سماجی زندگی کا ناک نقشہ مستقل بدل کر رکھ دیا ہے حفاظتی ماسک اور دستانے عمومی زندگی کا لازمی حصہ بن جائیں گے، رضاکارانہ حفاظتی رویوں کا انتظام آداب زندگی کا جزو لازم ہو جائے گا ویسے اب کیا ہوگا ؟
اس سوال کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں، لیکن اب کیا کچھ ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے پاس ہے۔ کرونا وائرس کے ساتھ یا اس کے بعد کی دْنیا کیسی ہو جائے گی اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ کرونا کے ساتھ یا اس کے بعد کی دْنیا آج سے یکسر مختلف ہوگی سوچنے کا انداز بدل جائے گا کیا جان لیوا نادیدہ کرونا وائرس دو ماہ میں ختم ہوجائے گا اور کیا اس کی ویکسین مْفت میں دستیاب ہوگی؟ کیا اس کی شدت میں اس حد تک کمی آجائے گی کہ زندگی دوبارہ پْرانی ڈگر پہ لوٹ آئے گی؟ کیا اس کی شدت میں اور اضافہ ہوگا کہ اب سے کئی گْنا زیادہ کیسز اور اموات ہونگی اور زندگی انتہائی مْشکل ہوجائے گی؟
اس بات سے قطع نظر کہ کرونا کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے بنی نوع انسان یہ جان لے گا اور جانچ بھی لے گا کہ اس کے ساتھ کس طرح چلتے رہنا ہے، جس کی آئی ہے اسے کون ٹال سکتا ہے اور جیتے جی کیوں مرا جائے۔ جہاں اور کئی ہزاروں بیماریوں سے مرنا ہے تو ایک کرونا سے بھی گذارا کرلیا جائے۔ سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ جس طرح سانس لینے کے لئے دو عدد پھیپھڑے، صفائی کے لئے دو عدد گْردے، دیکھنے کے لئے دو عدد آنکھیں، سْننے کے لئے دو عدد کان نہایت ضروری ہیں اسی طرح دو عدد اور چیزیں بھی شامل کرلیں، ایک ماسک اور دوسرے دستانے۔ باقی احتیاطی تدابیر جیسے صابن سے ہاتھ دھونا، سینیٹائزر کا استعمال، سماجی فاصلوں کا اہتمام کرنے کے بعد اب ان دو چیزوں کا استعمال تو زندگی کا لازمی جْزو ہوگا۔ اتنا شعور اور اہتمام کرنا ہوگا کہ جو لوگ کرونا کی نشانیوں میں سے کوئی ایک بھی رکھیں تو خود تشخیصی نظام کے تحت اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے رضاکارانہ خود علیحدگی (self isolation)پر گھر ہی قیام کریں اور جو باہر ہیں وہ اْن کی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھیں۔
ان اقدامات کے بعد کرونا وائرس آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ کرونا وائرس کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ خود مْردہ ہے، اسے زندہ ہونے اور پھلنے پھولنے کے لئے زندہ جسم چاہیے اور دوسروں تک پہنچنے کے لئے ایسی سواری چاہئیے جو نہ ماسک پہنے اور نہ دستانے استعمال کرے آپ اس کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھائیں، اس کی مختصر عمر اس کی سب سے بڑی مجبوری ہے، یہ دو ہفتے سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا، وہ بھی جب اسے میزبان مل جائے اور یہ اپنی پیداوار بڑھا سکے ، ہوا اور کسی شے جیسے کپڑے یا کسی بھی چیز پر یہ چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا، آپ کی عْمر تو سالوں پہ بلکہ سو سال پہ مْحیط ہے، اس چھوٹے سے نادیدہ مردہ کیڑے کو موقع نہ دیں کہ یہ آپ کو ختم کرے۔ آپ اسے بھوکا پیاسا مار دیں ورنہ یہ آپ کو اذیت ناک موت مارے گا۔معمولی احتیاط سے معمول کی زندگی بحال کی جاسکتی ہے اور سب کام کاج پھر سے شروع کرسکتے ہیں اگر آپ ماسک اور دستانے پہنیں۔ اور جو بیمار ہیں وہ گھر پہ رہیں۔ اگر ایک بار آپ نے یہ سائیکل پورا کرلیا اور کرونا کو نہ میزبان دیا اور نہ سواری مہیا کی ،تویہ مر جائے گا اور آپ بچ جائیں گے، یہ دوسروں کو مارنے کے لئے آپ کے کندھے استعمال کرتا ہے، آپ اسے اپناکندھا مت استعمال کرنے دیں ، بلکہ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اسے ’’آخری کندھا دیں۔ ‘‘
اب ایسی ایسی تحقیقات سامنے آئیں گی کہ حْکومتوں کے نا قص انتظامات جن میں غیر معیاری تشخیصی کٹس اور آن کا ناقص طریقے سے استعمال، غلط دوائیو ں کے تجربات، ہسپتالوں کی ناگْفتہ بہ حالت، عملے کی ناقص تربیت، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، بیوروکریسی، حکومتی عمال، اور دیگر افراد کے انتہائی غیر پیشہ ورانہ اقدامات سے کیسیاس بیماری کو پھلنے پھولنے کا زیادہ موقع ملا۔ ریاست اور جمہوریت دونوں کو پاکستان میں مذاق بنادیا گیا ہے جس سے عوام کا اعتماد اْٹھ چکا ہے، عالمی معاشی مْدبر اور نوبل پرائز ونر پروفیسر پال کروگمین پہلے سے ہی یہ بات کہہ رہے ہیں۔ مغربی ریاست و جمہوریت نے اپنے شہریوں کو کسی حد تک آزادی تو دی ہے مگر وہ اْنہیں تحفظ اور سلامتی نہیں دے سکی اور آج مغربی دْنیا شدید عدم تحفظ کا شکار ہے،ہماری ریاست وجمہوریت اور بمع تمام ریاستی اداروں کے صرف مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے کرایہ کے چو کیداروں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ہمارے جیسے دیگر ترقی پذیر مْمالک میں ریاست م ایک بڑی دْکان، سْپر سٹور بن چکی ہے جس میں سارا سامان مغربی ساختہ آیا ہوتا اور وہ اْسے اپنے عوام کو مہنگے داموں بیچتی ہے اور کوئی خدمت بجا نہیں لاتی اس لئے ہمارے معاشروں میں ریاست اپنا وجود اور جواز دونوں کھو چْکی ہے۔
کرونا وائرس نے مغرب میں بھی ریاست و جمہوریت پہ ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے، بیل آؤٹ پیکجز اس سے زیادہ کْچھ نہیں کہ عوام کا نچوڑا ہوا خون ایک بار پھر تھوڑا تھوڑا کرکے جوس اور دودھ کے ڈبوں کی شکل میں دوبارہ عوام کے جسموں میں ڈال دیا جائے تاکہ یہ پھر متوقع ڈونرز ہوں اور ان کو پھر نچوڑا جاسکے۔
کرونا نے بیک وقت ریاست اور جمہوریت کو چیلنج کر دیا ہے، یہ بقا کی جنگ کا آخری موقع ہے اس کے بعد نہ ہی یہ ریاست رہے گی اور نہ ہی یہ جمہوریت بچ سکے گی اور سرمایہ داری نظام بھی موجودہ شکل و صورت میں برقرار نہیں رہ سکے گا سب کْچھ بدل جائے گا، کون سا نظام اس کی جگہ لے گا ابھی کہنا قبل ازوقت ہے۔ ہوسکتا ہے انسان اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے اور اپنے بنائے ہوئے نظاموں سے تائب ہوجائے۔انسان نے اب تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بھر ہور تیاری کی تھی ایٹم بم، نائٹروجن، ہائیڈروجن بم، بِراعظمی بیلِسٹک میزائلز، ڈیزی کٹرز، اور بموں کی ماں جیسے بم، حیاتیاتی و جنییاتی ہتھیاروں کے انبار جنون برتری میں لگائے تھے اور اسے اب اپنی حقیقت اور اوقات معلوم ہوئی ہے کہ انسان تو خوردبین سے بھی نظر نہ آنے والے ایک نہایت حقیر اور بے جان جرثومے سے بھی مر سکتا ہے، اب شاید انسان کو شرم آجائے اور وہ ان مْہلک ہتھیاروں کی تیاری پہ پیسہ خرچ کرنے کی بجائے انسان کی بہتری اور فلاح کا سوچنے لگے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024