نتائج اخذ کرنے ہوں یا کوئی پالیسی فریم کرنی ہو وہ عنصر جو ان ایکسرسائز میں سب سے بڑھکر بنیادی کردار ادا کرتا ہے عام زبان میں اسے ریسرچ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ایک کھلی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں وہی ادارے چاہے وہ یونیورسٹیز ہوں یا ہسپتال، لیبارٹریز ہوں یا دیگر سول یا دفاعی ادارے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنا سکیں ہیں جنھوں نے اس ریسرچ کے ٹول کا صحیح اور بروقت استعمال کیا ہے۔ راقم کو یہاں یہ حقیقت لکھتے ہوئے رتی بھر ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی بلکہ یہ لکھوں کہ شرمندگی ضرور محسوس ہو رہی ہے تو بیجا نہ ہو گا کہ ہمارے ملک پاکستان میں بشمول PCSIR لیبارٹری شائد ہی کوئی ایک یا دو ادارے ایسے ہوں جہاں جدید طریقوں پر ریسرچ ہوتی ہو۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ریسرچ کی بنیاد پر اگر پاکستان کے کسی ادارے کا فخر سے نام لیا جا سکتا ہے تو وہ ہے اٹامک ریسرچ لیبارٹری جسے ملک کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کے نام سے منسوب کیا گیا ہے دنیا میں شائد ہی کوئی ایک ایسا فرد ہو جو اس حقیقت سے انحراف یا اختلاف کر سکے کہ اپنے محدود وسائل اور بیشمار مشکلات کے باوجود جو کارہائے نمایاں اس ادارے نے انجام دیے ہیں اور جو عالمی شہرت اس ادارے نے پائی ہے وہ کسی اور کا مقدر بنی ہو۔ اب آتے ہیں پاکستان کے اس دوسرے ادارے کی طرف جو نہ صرف عالمی سطح پر پروفیشنلزم کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے بلکہ جسکی دھاک پوری دنیا پر بیٹھی ہوئی ہے وہ ہے پاکستان کی مسلح افواج کا ادارہ کیونکہ مسلح افواج سول اداروں کی نسبت اپنے زیادہ تر معاملات میں تصویر اور تشہیر کا سہارا کم لیتی ہیں شائد اسلیئے بہت کم لوگوں کو اس بات سے آگاہی ہو کہ ریسرچ کا جتنا مربوط نظام اور اس پر جتنی توجہ اس ادارے میں دی جاتی ہے شائد ہی کوئی اور ادارہ ہو جہاں اسطرح کی کیمسٹری پر زور دیا جاتا ہو۔ جو لوگ مسلح افواج کی ورکنگ سے آگاہی رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مسلح افواج اپنی کسی بھی پلاننگ اور کاروائی سے پہلے کس طرح مختلف زاویوں سے اسکا جائزہ لیتی ہیں اسکے ممکنہ اثرات اور نتائج پر غور کرتی ہیں پھر کہیں جا کر وہ اسکے merits اور demerits کا جائزہ لینے کے بعد اسکے متعلق کوئی حکمت عملی ترتیب دیتی ہیں۔ وہاں اسطرح بالکل کچھ نہیں جیسا ہمارے سول اداروں میں ہے کہ" بْوے آئی جنج تے وِنوں کْڑی دے کن"۔
یوں تو پاکستان کا بچہ بچہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ جب بھی ملک کو بیرونی یا اندرونی طور کسی بھی خطرے یا آفت کا سامنا ہوا یہ پاکستان کی مسلح افواج ہی ہیں جنھوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر اس ملک کی اور اسکے شہریوں کی حفاظت کو اپنی اولین ترجیح سمجھا ہے۔ اج جب پوری دنیا بشمول ہمارا ملک پاکستان ایک انتہائی مہلک بیماری کا سامنا کر رہے ہیں تو اس وباء کے ابتدائی دنوں کے واقعات اور اس سے نبردآزما ہونے کی حکمت عملی نے بظاہر کچھ حب کے پجاریوں اور کچھ بْغض کے مریضوں کو اس پر بولنے کیلئے خاطر خواہ مواد مہیا کیا جو کہ راقم کی نظر میں اس وقت ایک لاحاصل مشق کے سوا کچھ نہیں پھر بھی سارے معاملے کی نزاکت کے پیش نظر جس دن سے اس وباء سے نمٹنے کیلیئے معاملات پاکستان آرمی کے زیر کنٹرول نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اینڈ کوارڈینیشن کنٹرول اتھارٹی کو تفویض کیے گئے ہیں غیر جانبداری سے یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ اب فیصلوں میں ایک تسلسل اور ٹھہراؤ کا غالب عنصر نظر آنا شروع ہو گیا ہے جسکی ممکنہ وجہ وہی نظر ا رہی ہے کہ فیصلے کرتے وقت زمینی حقائق اور اسکے سیاق و سباق میں دستیاب ڈیٹا کو سامنے رکھ کر حکمت عملی مرتب دی جارہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس سطح پر اور جس پیشہ وارانہ اہلیت پر ہماری آرمی کا ادارہ اس وباء کے اوپر ڈیٹا مرتب کر رہا ہو گا اور دنیا میں دستیاب ڈیٹا کی مدد سے اپنی حکمت عملی مرتب کر رہا ہو گا اس پر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان آرمی کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر صرف کہا ہی نہیں جا سکتا بلکہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسے بھی کامیابی سے ہینڈل کر لیں گے لیکن اسکے ساتھ زمینی حقائق ابھی سے ایک اور بہت بڑی بلا، وباء ، آفت کا چیخ چیخ کر پتہ دے رہے ہیں اور وہ ہے وہ وقت جب خْدا نہ کرے پیٹ کی بھوک موت کے خوف پر غالب آ جائے۔ پچھلے پندرہ روز سے راقم کے مشاہدے میں جو بات آئی ہے وہ ہے حالات کا جبر جس نے ہمارے معاشرے کے غریب طبقہ کو دو واضع گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے جس میں ایک ہے سفید پوش طبقہ جو اس وقت امداد کا اصل حقدار ہے اور دوسرا ہے وہ پیشہ ور بھکاری طبقہ جو ایک مافیا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ نہ صرف وہ صحیح حق داروں کا حق مار رہے ہیں جو خطرہ سب سے بڑھکر نظر آ رہا ہے کہ لاک ڈاون کر کے اس بیماری کو محدود کرنے کا جو ہمارا اصل حاصل مقصد ہے نہ صرف وہ مخدوش نظر آ رہا ہے بلکہ یہ حالات خدانخواستہ ہمیں اس موڑ کی طرف لے جا رہے ہیں جب یہ سفید پوش طبقہ اپنی پیٹ کی بھوک کی وجہ سے باہر نکل آئے گا۔ یہ بات اب ہماری تمام سیاسی اشرافیہ بشمول حکومت اور اپوزیشن دونوں کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کس طرح وقت سے پہلے اس وباء کو سماجی سیٹ اپ کی بنیاد پر ہینڈل کرتے ہیں یا پھر؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024