پاکستانی معیشت 2 سال زبوں حالی کاشکار رہے گی، پیداوار کم، مہنگائی اور قرضوں کا بوجھ بڑھے گا:عالمی بینک
پاکستانی معیشت 2 سال زبوں حالی کاشکار رہے گی، پیداوار کم، مہنگائی اور قرضوں کا بوجھ بڑھے گا۔ عالمی بینک کی تازہ رپورٹ میں پاکستانی معیشت کی تشویشناک اور مایوس کن منظر کشی کی گئی ہے۔
عالمی بینک نے جنوبی ایشیا سے متعلق ’’ایکسپورٹ وانٹڈ‘‘ کے عنوان سے اپنی علاقائی رپورٹ میں میں کہا ہے کہ مالی سال 2019ء میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 3.4اور مالی سال 2020ءمیں 2.7فیصد رہنے کی توقع ہے ،کیوں کہ حکومت نے مالیاتی اور زرعی پالیسی میں سختی کی ہے۔عالمی بنک کے مطابق ملک میں ہنگامی اصلاحات نافذ کی بھی جائیں تو 2021 تک پاکستانی معیشت کی شرح نمو 4 فیصدہو سکتی ہے۔
عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان الانگو پچاموتھو کا کہنا ہےکہ پاکستان کے لئے ضابطہ جاتی ماحول کو بہتر بنانا اور تجارت میں آسانیوں کو قائم کرنا ممکن ہے مگر اس کے لیے مواصلات کے محاذ پر بھی اصلاحات ضروری ہیں۔
عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کی تشویشناک اور مایوس کن منظر کشی کی ہے اور کہا ہے کہ آئندہ دو برس میں ملک کی ترقی کی شرح سست روی کا شکار رہے گی۔مہنگائی کے ساتھ ساتھ قرضوں کا بوجھ بھی بڑھے گا۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019اور مالی سال 2020میں غربت میں کمی کی رفتار میں سست روی برقرار رہے گی،جس کے بعد ترقی سست روی کا شکار ہوگی اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ مالی سال 2019کے دوران مہنگائی میں 7اعشاریہ1فیصداوسط اضافہ متوقع ہے، جو کہ مالی سال 2020میں 13اعشاریہ5فیصد تک پہنچ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں شرح مبادلہ میں مزید کمی ہوجائے گی۔مالی سال 2019کے دوران تجارتی خسارہ بڑھتا رہے گا ، جب کہ مالی سال 2020اور مالی سال 2021میں کرنسی کی قدر میں کمی ، ملکی طلب کا دبائو اور درآمدات کے حصول کو روکنے کے لئےدیگر ریگولیٹری اقدامات کیے جائیں گے۔رپورٹ میں ترسیلات زر ، تجارتی خسارے کے 70فیصد سے زائد کی پیش گوئی کی گئی ہے۔مالی سال 2019کے دوران مالی خسارے میں بھی 6اعشاریہ9فیصد اضافہ متوقع ہے، جب کہ مالی سال 2020اور مالی سال 2021میں بھی اس میں اضافہ ہوگا، جس کی وجہ سود کی بھاری ادائیگیاں اور ملکی آمدنی میں سست روی ہوگی۔عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ساختی اصلاحات پر عمل درآمد کی فوری ضرورت ہے تاکہ مالی سال 2021اور اس کے بعد ترقی میں مدد مل سکے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ بڑھتی ہوئی شرح مہنگائی کے سبب غربت میں خاتمے میں جو حالیہ کامیابی ملی تھی اس کو بریک لگ سکتی ہے کیوں کہ قیمتوں میں اضافے سے شہری علاقوں میں رہنے والے غریب طبقے کے افراد زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔پاکستان میں جاری کھاتے کا خسارہ بڑھتا رہے گا ۔تاہم گزشتہ برس کے مقابلے میں اس میں استحکام ہے کیوں کہ 2018کی چوتھی سہ ماہی میں یہ جی ڈی پی کا 5اعشاریہ 2 فیصد تھا۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان کی کرنسی کی قدر میں کمی کا سلسلہ اپنے تجارتی شراکت داروں کے مقابلے میں جاری ہے ، جب کہ بھارت کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔پلوامہ واقعے کے بعد بھارت ‘پاکستان کے حوالے سے پسندیدہ قوم کی حیثیت سے دستبردار ہوگیا تھااور اس نے پاکستان سے تمام درآمدی اشیا پر 200فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کردی تھی۔
پاکستان میں بیرونی کھاتے کے دبائو نے عالمی ذخائر میں کمی کی ہے جوجنوری 2019کے وسط تک 6اعشاریہ6ارب ڈالرز تک ہوگئے ہیں ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف سے پیکج کے لیے پاکستانی حکومت کے مذاکرات جاری ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان اور بنگلا دیش میں گرانی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہےاور حال ہی میں سری لنکا میں بھی اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں مہنگائی کی وجہ شرح مبادلہ میں کمی، طلب کا دبائو اور بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتیں ہیں ۔فروری 2018 سے فروری 2019کے درمیان صارف کے لیےتیل کی قیمتوں میں 8اعشاریہ2فیصد تک اضافہ ہوا ہے، جو کہ جنوبی ایشیا میں بالحاظ شرح سب سے زیادہ ہے۔گزشتہ مالی سال کے دور ان پاکستا ن میں ریکارڈ تجارتی خسارہ ہوا ، جو کہ 31اعشاریہ1ارب ڈالرز تھا، جس کی وجہ سے جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے 6اعشاریہ1فیصد تک پہنچ گیاہے ۔
2005سے 2018کے درمیان پاکستان کی برآمدی اشیاء 16ارب ڈالرز سے بڑھ کر 23ارب ڈالر ز تک پہنچیں ، یعنی اس میں صرف 47فیصد اضافہ ہوا، اس کے مقابلے میں بنگلا دیش میں یہ اضافہ 286فیصد، ویتنام میں 563فیصد اور بھارت میں یہ اضافہ 193فیصد تک ہوا۔پاکستان میں مسابقتی عمل کے متاثر ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ان میں مہنگا کاروبار، قابل استطاعت قیمت پر بجلی کی فراہمی اور مالیات تک رسائی شامل ہے۔تاہم تین عوامل نے برآمد کنندگان کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ان میں تجارتی پالیسی کا برآمدات مخالف تعصب، برآمداد کی بہتری کے انفرا اسٹرکچر کا ناموزوں ہونا اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کے گرد مبہم ریگولیٹری نیٹ ورک شامل ہیں۔ساؤتھ ایشیا اکنامک فوکس کے تازہ ترین شمارے میں شائع ششماہی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عالمی بینک نے کہا کہ جنوبی ایشیا دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا خطہ ہے جہاں رواں سال شرح نمو بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ 2020 اور 2021 میں یہ 7.1 فیصد ہو جائیگی۔تاہم عالمی بینک نے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کے ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی بھرپور استعداد کے مطابق معاشی ترقی اور موجودہ رفتار برقرار رکھنے کے لیے برآمدات کو بڑھائیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ترسیلات زر سے آئندہ سال کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو مدد ملے گی جبکہ بہتر اقدامات کے نتیجے میں 2021 میں معیشت کی بہتری کا امکان ہے۔عالمی بینک نے خدشہ ظاہر کیا کہ 2019 میں پاکستان کا تجارتی خسارہ بڑھتا رہے گا لیکن آئندہ 2 سال میں اس میں کمی کا امکان ہے۔جنوبی ایشیا میں گزشتہ دو برس کے دوران برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔2017میں درآمدات میں 14اعشاریہ9فیصد اضافہ ہوا اور 2018میں 15اعشاریہ6فیصد اضافہ ہوا۔جو کہ خطے کی برآمدات میں اضافے کا تقریباًدگنا ہے، کیوں کہ 2017میں برآمدات میں صرف 4اعشاریہ6فیصد اضافہ ہوا تھا اور 2018میں 9اعشاریہ7فیصد اضافہ ہوا تھا۔