ٹیکس ایمنسٹی سکیم، ٹیکس نیٹ بڑھانے کا ذریعہ ہو سکتی ہے
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز پانچ نکاتی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر دیا جس کے تحت قومی شناخت کارڈ نمبر ہی انکم ٹیکس نمبر ہو گا۔ بیرون ملک سے رقوم کو قانونی طریقے سے لانے پر 2فیصد اور اندرون ملک ظاہر کرنے پر 5فیصد ادائیگی کرنا ہو گی جبکہ ماہانہ ایک لاکھ اور سالانہ 12لاکھ آمدن والے انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ 24 سے 48لاکھ سالانہ آمدن پر 10فیصد ، 48لاکھ سے زائد سالانہ آمدن پر 15فیصد ٹیکس ہو گا۔ وزیراعظم کے مطابق سکیم 30جون 2018ءتک جاری رہے گی جس کا اطلاق سیاسی لوگوں، ان کے زیرکفالت افراد اور سرکاری ملازمین پر نہیں ہو گا۔ وزیراعظم کے مطابق خفیہ پراپرٹی قانونی بنانے کے لئے ایک فیصد اور کم مالیت کی جائیداد 100فیصد منافع پر حکومت خریدنے کی حق دار ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں صرف بارہ لاکھ لوگ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروا رہے ہیں جن میں سے پانچ لاکھ زیرو ریٹرن کے حامل ہوتے ہیں۔ گویا صرف 7لاکھ لوگ انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں جن میں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ہے۔ وزیراعظم نے ٹیکنالوجی کے ذریعے نیا نظام وضع کرنے، آمدن کی معلومات حاصل کرنے، سکیم کا مقصد انکم ٹیکس کی شرح کو قابل برداشت بنانے، اندرونی و بیرونی ملک بینک اکا¶نٹس اور اثاثے رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو اثاثے ظاہر کرنے کی سہولت کا اعلان کیا اور بتایا کہ اندرون ملک اثاثے ظاہر کرنے پر پانچ فیصد کی شرح سے جرمانہ عائد ہو گا جو صرف ایک مرتبہ عائد کیا جائے گا اور اس کے بعد متعلقہ شہری ٹیکس گزار بن جائے گا۔ پاکستان کے باہر کے اثاثوں کو باقاعدہ چینلز کے ذریعے ملک میں لانے پر دو فیصد کی شرح سے جرمانہ عائد ہو گا۔ ملک سے باہر ڈالر اکا¶نٹ رکھنے والے پاکستانی وہاں پیسے رکھ سکیں گے تاہم یہاں ڈکلیئر کرنے پر پانچ فیصد کے حساب سے ادائیگی کرنی ہو گی۔ ملک میں ٹیکس سے بچنے کے لئے پراپرٹی کی صورت میں سرمایہ کاری کے رائج نظام کے تحت کاغذات میں جائیداد کی قیمت کم لکھنے کی بجائے نئے نظام میں جائیداد ڈکلیئر کرنے پر ایک فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا اور کم مالیت بتانے والوں کے خلاف اقدامات کئے جائیں گے اور حکومت اس کی جائیداد خرید سکے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس ضمن میں صوبائی حکومتوں سے بھی بات چیت کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا کہ وہ بھی مختلف ٹیکس کی شرح ایک فیصد کے حساب سے لاگو کریں۔ انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنی بھی اثاثہ ہے۔ آف شور کمپنی رکھنا جرم نہیں لیکن اگر آپ نے اثاثے رکھے تو یہ موقع ہے کہ وہ اسے ڈکلیئر کرے اور سکیم سے فائدہ اٹھائے۔ گو وزیراعظم نے اس سکیم کے تحت ریونیو کولیکشن کی پالیسی اپنانے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ سکیم کا مقصد ٹیکس کلچر، ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس دہندگان کی شرح کو بہتر بناتے ہوئے مضبوط معیشت کے کلچر کو فروغ دینا ہے لیکن دوسری طرف ایمنسٹی سکیم پر ملاجلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ ماہرین معیشت کی زیادہ تعداد اس سکیم کو اس بناءپر خوش آئند قرار دے رہی ہے کہ اس کے تحت ریونیو کولیکشن اور بنیادی ٹیکس نیٹ ورک کو آسانی سے بڑھایا جا سکے گا جبکہ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ٹیکس چور کبھی بھی اس سکیم سے استفادہ حاصل نہیں کریں گے البتہ بیرون ممالک میں غیرملکیوں کے اثاثوں کے حوالے سے جو مختلف قوانین سامنے آ رہے ہیں جیسے لندن میں روس کے حوالے سے ایک نیا قانون سامنے لایا گیا اور آئندہ ایک قانون سازی کے ذریعے غیرملکیوں کے اثاثوں کو منجمد اور ضبط کرنے کے بارے میں قانون سازی کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت نے حالیہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم آف شور کمپنیوں کے تناظر میں تشکیل دی ہے اور شاید اس سکیم کا مقصد ان افرادکو تحفظ فراہم کرنا ہے جن کے گرد بیرون ممالک میں شاید آئندہ گھیرا تنگ ہونے جا رہا ہے ۔ بہرحال سکیم کے کچھ بہتر نکات بھی ہیں جس سے ٹیکس نیٹ ورک میں یقینی طور پر اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن سابق وفاقی وزیرخزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کے اس مطالبے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ سکیم کا تسلسل آئندہ قائم ہونے والی حکومت کو بھی جاری رکھنا ہو گا۔ یہ بات بھی انتہائی غورطلب ہے کہ اس سکیم کے تحت اندرون ملک کالادھن رکھنے والے پانچ فیصد کی شرح سے جرمانہ کی ادائیگی کی صورت میں اپنی رقم کو وائٹ کر لیں گے اور اس میں حکومت کو یہ فائدہ ہو گا کہ ایسے لوگ باقاعدہ ٹیکس نیٹ ورک میں شامل ہو جائیں گے لیکن دوسری طرف بہت سارے کاروباری طبقات اور ان کی تنظیموں کو اس امر پر شدید احتجاج ہے کہ وہ کاروباری لوگ جو سالہاسال سے 15فیصد کے حساب سے ٹیکس نیٹ ورک میںموجود ہیں، بار بار ٹیکس ایمنسٹی سکیم وغیرہ کے آنے سے ایسا تاثر جاتا ہے کہ ٹیکس نیٹ ورک میں آنے کی بجائے ہر پانچ سال بعد کوئی نہ کوئی سامنے آنے والی ایمنسٹی سکیم کے ذریعے اپنی رقم کو وائٹ کر لیا جائے۔ فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شبیر حسین چاولہ نے بھی اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس سکیم پر اس کی مکمل تفصیلات سامنے نہ آنے کی صورت میں اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سکیم میں پراپرٹی کے حوالے سے بیشتر نکات خوش آئندہیں جس سے ڈی سی ریٹ کے خاتمے وغیرہ اور اصل ریٹ پر رجسٹری کی صورت میں صوبائی حکومتوں کے ریونیو میں بھی خاطرخواہ اضافہ کیا جا سکے گا۔ نیز اس سکیم میں بیرون ممالک سے رقم کو لا کر دو فیصد جرمانہ کی ادائیگی کی صورت میں ٹیکس نیٹ ورک میں شامل ہونے پر کئی طرح کے ابہام اور اعتراضات کو سامنے لایا جا رہا ہے۔ ایک بنیادی نکتہ یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ جس طرح بیرون ممالک میں غیرملکی کے اثاثے کے حوالے سے سخت قوانین کی بازگشت سامنے آ رہی ہے کیا صرف دوفیصد جرمانے سے ایسے افراد کو مکمل طور پر حکومت کی طرف سے وائٹ سرٹیفکیٹ فراہم کر دینا درست ہے؟۔ ان دنوں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں پانچ فیصد گر چکی ہے اور حکومت نے غیرممالک میں اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں پر دوفیصد جرمانے کی شرح عائد کی ہے۔ اس لحاظ سے وہ لوگ ڈالر اور روپے کی قدر میں واضح گیپ سے تقریباً مفت اپنی غیرملکی جائیداد اور رقم کو وائٹ کروا سکیں گے۔ ڈالر بانڈز کے اجراءکے بارے میں مشیرخزانہ مفتاع اسماعیل مثبت بات کر رہے ہیں لیکن اس کا اطلاق یعنی اس سہولت سے استفادہ تمام ایسے لوگ کریں گے جن کے بیرون ملک اکا¶نٹس موجود ہیں۔ ہمارے خیال میں ایسا ممکن نہیں اور کچھ محدود لوگ اس سے درپردہ فائدہ اٹھا سکیں گے جن کے بارے میں دبے دبے انداز میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم آف شور کمپنیوں اور کالادھن رکھنے والوں کو تحفظ فراہم کرے گی لیکن اس سے حکومت کو اچھا خاصا ریونیو حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی ٹیکس نیٹ ورک بڑی حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم اس کی شرح 25فیصد تک جاتی دیکھ رہے ہیں۔ مفتاع اسماعیل بھی ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں تاہم ٹیکس ایمنسٹی سکیم پر وزیراعظم نے کہا تھا کہ اگر اس کے خلاف کوئی عدالت میں جاتا ہے تو عدالت کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ اپوزیشن کی جماعتیں، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اس سکیم کی کھل کر مخالفت کر رہی ہیں۔ سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے اس سکیم کو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے خلاف قرار دیا ہے جبکہ عمران خان اس سکیم کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ دیکھتے ہیں آئندہ یہ سکیم جس پر ملاجلا ردعمل سامنے آ رہا ہے اس کا کیا بنتا ہے۔ وزیراعظم اسے پارلیمنٹ لے جا کر منظوری کی بات کر رہے ہیں جبکہ اپوزیشن عدالت سے رجوع کرنے کی باتیں کر رہی ہے۔ 2013ءمیں نوازشریف کی طرف سے جاری کی گئی ایک ایمنسٹی سکیم بھی عدالت کی طرف سے کالعدم قرار دے دی گئی تھی جس پر صدارتی آرڈیننس کے تحت محدود عرصہ عملدرآمد کیا جا سکا تھا۔ موجودہ حکومت جس نے اس مرتبہ بجٹ بھی پہلے پیش کرنا ہے جس کی تاریخ 27اپریل بتائی گئی تھی صرف بجٹ سے کچھ عرصہ پہلے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے اعلان پر بھی کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں لیکن مجموعی طور پر ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھانے میں یہ سکیم وطن عزیز کی تاریخ میں سامنے آنے والی ایمنسٹی سکیمز کے تناظر میں سب سے نرم سکیم ہے۔ اس کے پانچ نکات میں سے کچھ نکات کو تبدیلیوں کے ساتھ نافذ کیا جائے تو بہتر نتائج اور فوائد سامنے آ سکتے ہیں۔