ایرانی پارلیمنٹ سے پاکستان ایران سکیورٹی معاہدے کی توثیق اور افغان انتخابات پر وزیراعظم نوازشریف کا اظہار مسرت
ایران کی پارلیمنٹ نے ایران کے پاکستان کے ساتھ سکیورٹی معاہدے کی گزشتہ روز توثیق کردی جس کے تحت دونوں ملک انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکیں گے۔اس معاہدے کے بعد دونوں ملک خطے میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ بھی کر سکیں گے اور دہشت گردوں کے علاوہ جرائم پیشہ عناصر کی شناخت‘ انکے تعاقب اور ان کیخلاف کارروائیوں میں بھی باہمی تعاون کرینگے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں ملکوں میں تعاون بین الاقوامی پولیس کے قوانین اور دونوں ملکوں کے متعلقہ قوانین کے تحت ہو گا۔ یہ معاہدہ گزشتہ سال ایرانی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا جس کی ایرانی محافظوں کے اغواءاور پاک ایران سرحد پر ایران کے اندر ہونیوالی دہشت گردی کے باعث پاکستان کے ساتھ پیدا ہونیوالی کشیدگی کی وجہ سے توثیق نہ ہو سکی جبکہ اب ایرانی محافظین کی شدت پسند تنظیم جیش العدل سے بازیابی اور انکے بحفاظت گھروں میں واپس پہنچنے پر ایرانی پارلیمنٹ نے اس معاہدے کی مشترکہ طور پر منظوری دے دی ہے جس سے پاکستان ایران دوطرفہ تعلقات کی نئی راہیں کھلنے کا بھی قوی امکان ہے۔ دوسری جانب برادر پڑوسی ملک افغانستان کے صدارتی انتخاب میں افغان عوام کی بھاری اکثریت کے ساتھ شرکت سے بھی عوام کی سطح پر پاکستان اور افغانستان کے مابین بھائی چارے کا مضبوط رشتہ استوار ہونے اور نتیجتاً حکومتی اور ریاستی سطح پر بھی دونوں ممالک کے مابین دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے کشیدہ ہونیوالے تعلقات میں بہتری کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں جس کی بنیاد وزیراعظم نوازشریف نے نئی افغان قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کرکے رکھ دی ہے۔ انہوں نے کامیاب انتخابات کے انعقاد پر کرزئی اور افغان عوام کو مبارکباد بھی پیش کی ہے۔
اگرچہ رسمی طور پر پاکستان کے ایران اور افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعاون کے برادرانہ تعلقات قائم رہے ہیں جن کا سفارتی سطح پر باہمی رابطوں اور ملاقاتوں کے دوران اعادہ بھی کیا جاتا رہا ہے مگر فی الحقیقت یہ تعلقات اخلاص سے عاری رہے اور کسی معمولی سی غلط فہمی کی بنیاد پر بھی پاکستان ایران اور پاکستان افغانستان تعلقات دشمنی کی حدوں کو چھوتے نظر آتے رہے ہیں۔ بالخصوص گزشتہ دہائی میں دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنے کے بعد ایران کے پاکستان کے ساتھ تحفظات کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ کرزئی کی کابل انتظامیہ امریکی پالیسیوں کے تابع پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے میں پیش پیش رہی ہے۔
اس خطے میں پاکستان‘ ایران اور افغانستان کی شکل میں تین ایسے مسلم ممالک موجود ہیں جو گیس‘ تیل‘ کوئلہ اور سونا چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کے قیمتی قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ چنانچہ یہ ممالک باہمی تعاون سے ایک دوسرے کے وسائل کو بروئے کار لائیں تو ملکی اور قومی استحکام کے علاوہ عوام کی ترقی اور خوشحالی بھی دنیا کیلئے مثال بن جائے۔ بلاشبہ یہ سہ طرفہ تعاون ایک مضبوط اسلامی بلاک کی شکل میں مسلم امہ کو درپیش اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کی تمام سازشوں کا بھی توڑ کر سکتا ہے اور بیرونی طاقتوں کے مقابلے میں علاقائی امن و سلامتی کا بھی ضامن بن سکتا ہے۔ یقیناً اس حقیقت کا ادراک کرکے ہی طاغوتی طاقتوں نے پاکستان‘ ایران اور افغانستان کو باہمی غلط فہمیوں کا شکار رکھنے کا ایجنڈہ طے کیا جسے افغان صدر کرزئی کے کٹھ پتلی کردار اور ایران کے اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد کے طاغوتی طاقتوں کیخلاف جارحانہ رویے کے پیش نظر عملی جامہ پہنانا آسان ہو گیا۔ ایران نے امریکی دھمکیوں کے پیش نظر اپنے دفاع کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کا بیڑہ اٹھایا اور اسرائیل کی سلامتی کو چیلنج کیا تو ایٹمی عدم پھیلاﺅ کے نام نہاد ایجنڈہ کے تحت امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی جانب سے ایران پر ناروا اقتصادی پابندیاں عائد کرکے دنیا میں اس کا ناطقہ تنگ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ایسی کسی پابندی اور دھمکی کو ایران خاطر میں نہ لایا اور اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھا۔ انہی مراحل میں پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے ایران کے ساتھ پہلے سے کئے گئے گیس پائپ لائن کے معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت محسوس ہوئی جس کی بنیاد پر اس معاہدے کی تجدیدنو کرکے اس پر کام شروع کرنے کا عندیہ ظاہر کیا گیا تو پاکستان کو امریکی دھمکی مل گئی کہ اسے اس منصوبے کی تکمیل کا خمیازہ ایران جیسی اقتصادی پابندیوں کی شکل میں بھگتنا پڑیگا۔ پاکستان کے سابق حکمران تو اس دھمکی کو خاطر میں نہ لانے کا عندیہ دیتے رہے اور سابق صدر آصف علی زرداری نے ایران جا کر گیس پائپ لائن کے مشترکہ منصوبے کے سنگ بنیاد کی تقریب میں بھی شمولیت کرلی مگر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ایران کے ساتھ گرمجوشی والے پاکستان کے تعلقات پر بھی اوس پڑنا شروع ہو گئی اور وفاقی وزیر پٹرولیم کی جانب سے حیلے بہانے سے اس معاہدے کو ناقابل عمل قرار دیا جانے لگا جس کا ایران کی جانب سے سخت نوٹس لیا گیا اور باور کرایا گیا کہ پاکستان کو مقررہ میعاد کے اندر اس معاہدے کی تکمیل نہ کرنے پر بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ اس دوطرفہ بیان بازی نے پاکستان ایران کشیدگی کی فضا ہموار کی جبکہ دوسری جانب ایرانی محافظوں کے اغواءاور قتل کے معاملہ میں بھی ایران کو پاکستان سے بدگمان کرنے کی سازشیں جاری تھیں جو ایران کی جانب سے پاکستان کو جنگ کی دھمکیوں پر منتج ہوئیں۔اسی دوران امریکہ کے اپنے مفادات کے تحت ایران کی جانب جھکاﺅ اور اسکے ردعمل میں سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ تعاون کے نئے موڑ کے آغاز سے بھی پاکستان ایران کشیدگی کی فضا میں اضافہ ہوا۔ اگر اغواءشدہ ایرانی محافظ بازیاب نہ ہوتے تو پاکستان ایران جاری کشیدگی نہ جانے کیا گل کھلاتی۔ اب جیش العدل نامی شدت پسندوں کی تنظیم نے جس کا پاکستان کے ساتھ دور نزدیک کا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہے اور اسکی جڑیں ایران میں ہی موجود ہیں‘ اغواءکئے گئے ایرانی محافظوں کو آزاد کیا تو ایران کو بھی اصل حقائق کا ادراک ہوا جس کی روشنی میں ایرانی پارلیمنٹ نے پاکستان کے ساتھ ایک سال قبل کئے گئے سکیورٹی معاہدے کی گزشتہ روز مشترکہ طور پر توثیق کرکے پاکستان ایران تعلقات اور باہمی تعاون کی نئی راہ متعین کردی۔ اس معاہدے کے تناظر میں ایک تو دونوں برادر مسلم ممالک کو پورا ادراک ہو گیا ہے کہ انکے مابین کشیدگی پر منتج ہونیوالی غلط فہمیاں پیدا کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں جبکہ اس سے مشترکہ دشمن کی بھی نشاندہی ہو گئی ہے۔
کچھ ایسی ہی فضا اب کرزئی حکومت کے خاتمہ کے بعد پاکستان افغانستان کے ممکنہ طور پر سازگار ہونیوالے تعلقات کے تناظر میں بھی استوار ہوتی نظر آرہی ہے۔ کرزئی نے اپنے مقاصد اور مفادات کے تحت اس خطہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کیلئے امریکی نیٹو افواج کو افغان دھرتی پر قدم جمانے کا موقع فراہم کیا تھا۔ کرزئی کے دونوں ادوار میں اس جنگ کا جو خمیازہ افغان عوام کو بھگتنا پڑا‘ اس کا انہیں مکمل ادراک ہے جس کا اظہار انہوں نے افغانستان کے صدارتی انتخاب میں بھرپور شرکت کرکے کیا ہے۔ اب انکے ووٹوں سے منتخب ہونیوالے صدر کے دور کا آغاز ہوگا تو اسکے ساتھ ہی افغانستان سے امریکی نیٹو افواج کے کوچ کا بھی آغاز ہو جائیگا۔ اگر اس مرحلہ میں کرزئی ہی اقتدار پر براجمان ہوتے تو لاجسٹک سپورٹ کے بہانے واشنگٹن انتظامیہ کو بدستور بلیک میل کئے رکھتے جس سے اس خطہ میں امن کا قیام خواب ہی بنا رہتا۔ اب جبکہ دہشت گردی کے مارے افغانستان اور پاکستان کے عوام کو امن کی ضرورت ہے اور ان کا یہ خواب افغانسان میں قیادت کی تبدیلی سے شرمندہ¿ تعبیر ہونے کی فضا بن رہی ہے تو یقیناً اس سے اسلام آباد اور کابل کی سطح پر بھی دوطرفہ خوشگوار اور سازگار تعلقات کیلئے پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے اس خطہ کی موجودہ صورتحال ایک مضبوط اور مربوط اسلامی بلاک کی تشکیل کیلئے انتہائی سازگار نظر آتی ہے۔ اگر پاکستان‘ ایران اور افغانستان ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کرکے اپنی اور علاقائی ترقی میں باہم متفق ہوجاتے ہیں اور اس تناظر میں ایک دوسرے کی سلامتی کے تحفظ کی بھی تدبیر کرلیتے ہیں تو یہی مضبوط اسلامی بلاک کی عملی شکل ہو گی۔ اس خطے کے عوام کی تو یہی خواہش ہے کہ یہاں امن و سلامتی کی فضا مستحکم ہو۔ اگر پاکستان‘ ایران اور افغانستان کے باہمی تعاون سے اس فضا کی راہ ہموار ہوتی ہے تو خطے کے عوام کو اس سے بہتر اور کیا تحفہ مل سکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38