منگل ‘ 7 جمادی الثانی 1435ھ‘ 8 اپریل 2014
بہاولپور چڑیا گھر میں بھوک سے تنگ شیرنی اپنے 2 بچوں کو کھا گئی، 2 کو مار ڈالا آج تک ہم نے اخبارات اور ٹی وی میں حکومتی پالیسیوں کے سبب ملک میں روز بروز ترقی کرنے والی بھوک اور بیروزگاری سے تنگ انسانوں کو خودکشی کرتے بچوں کو قتل کرتے دیکھا اور سنا تھا۔ اب تو حالات بہ ایں جا رسید کہ جانور بھی بھوک کے ہاتھوں اپنے بچوں کو قتل کرنے اور کھانے لگے ہیں کیونکہ بدقمستی سے چڑیا گھر کے ان بے زبان مکینوں کا رزق بھی انسانوں کے ہاتھ میں ہے اور یہ بے رحم انسان درندگی پر آجائے تو بڑے بڑے وحشی درندوں کو اپنی درندگی سے مات دے دیتا ہے۔ اب بھلا 4 بچوں کی ماں یہ بھوکی شیرنی کتنے دن بھوک برداشت کرتی۔
اس خبر کی اشاعت کے بعد کوئی یہ سمجھے کہ حکومتی ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو جائے گا یا جنگل کے جانوروں میں خوف و ہراس پھیل جائے گا۔ انسانی حقوق اوہ معاف کیجئیے حقوق حیوانات کی تنظیمیں اور وائلڈ لائف والے فوری طور پر ان پنجروں میں بند بھوکے جانوروں کی دلجوئی کے لئے ٹوٹ پڑیں گے۔ نہیں ایسی کوئی قیامت برپا نہیں ہو گی۔ ایسی خبروں کا صرف نوٹس لیا جاتا ہے۔ چند ایک نچلی سطح پر معطلیاں ہوتی ہیں اور پھر ”مٹی پاﺅ“ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں تو ماﺅں کے بچوں سمیت خودکشی کرنے کے درجنوں واقعات و سانحات کے باوجود انسانوں کے بھوک و بیروزگاری کے مسئلے حل نہیں ہوتے تو بھلا بے زبان جانوروں کی کون سنے۔ جو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کے ان کے نام پر ملنے والی رقوم بھی یہ اشرف المخلوقات کیوں ہڑپ کر جاتی ہے۔
اس پورے واقعہ میں ایک بات کھٹک رہی ہے کہ 38 روپے کلو کے حساب سے مردہ جانور کا جو گوشت ٹھیکیدار مہیا کرتا ہے اس کی اور چڑیا گھر کے عملے کی مہربانیوں سے وہ گوشت بھی کہیں 600 روپے کلو کے حساب سے ہفتہ میں ناغہ والے 2دنوں میں شہر کے ہوٹلوں میں تو سپلائی نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے شیرنی و دیگر گوشت خور جانور تو بھوکے رہ جاتے ہیں مگر ہزاروں انسانوں کے لذت کام و دھن کا سلسلہ اسی مردار گوشت کی بدولت چلتا رہتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
عابد شیر علی کے بیانات پر سندھ کا وفاقی حکومت سے احتجاج
بجلی چوری کے حوالے سے وفاقی وزیر عابد شیر علی کی طرف سے اکثر و بیشتر سندھ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی وہ خیبر پی کے کی بھی خبر لیتے ہیں۔ بلوچستان کے بارے میں غالباً ازراہ ہمدردی انہوں نے ”ہتھ ہولا“ ہی رکھا ہوا ہے۔ کراچی سمیت اندرون سندھ بجلی چوری کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کھلے عام غریب عوام کنڈے ڈال کر یا بجلی کے محکمے والوں کی خدمت کرکے جس حسن و خوبی سے بجلی چوری کرتے ہیں وہ باقی بجلی کے صارفین کیلئے ”مشعل راہ“ ہے۔ جو بے چارے مہنگی قیمت پر بجلی حاصل کرکے ایمانداری سے بل بھی جمع کراتے ہیں اور لوڈشیڈنگ کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔ ان شریف صارفین میں پنجاب کے صارفین سرفہرست ہیں۔ صوبہ خیبر پی کے میں تو بجلی اس لئے بھی چوری کی جاتی ہے کہ بقول شخصے ”یہ بجلی ہمارا پانی سے پیدا ہوتا ہے۔ ہم اسکا بل کیوں دے“
بلوچستان والے چونکہ دور دراز ہیں اس لئے وہاں مار دھاڑ اور اغوا کے خوف سے محکمہ بجلی کا ایماندار سٹاف جو صارفین کی طرف سے بصد شکر وصول ہو جائے اسی پر گزارہ کرتا ہے۔ اس عمل میں تو لگتا ہے پورا ملک مکمل ہم آہنگ ہے اور ملی یکجہتی کونسل کی طرح اخوت کا بھرپور مظاہرہ کر رہا تو پھر بھلا عابد شیر علی صرف سندھ پر برہم کیوں ہیں اور ایک خبر کے مطابق حصہ بقدر جثہ والے حسابی اصول کے مطابق پتہ چلا ہے کہ پنجاب والے آبادی اور صارفین کے حساب سے جس مہارت سے بجلی چوری کر رہے ہیں اس حساب سے تو پنجاب کا نمبر سب سے پہلا ہے۔ اب کیا فرماتے ہیں عابد شیر علی ”دربیج ایں مسئلہ“
٭....٭....٭....٭
پابندی کے باوجود کالعدم تنظیمیں چندے وصول کر رہی ہیں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی بات تو یہ ہے نہایت پابندی کے ساتھ ہر ہفتے یا ماہوار چندہ وصول کیا جاتا ہے۔ اب بھلا یہ کوئی بات ہے اگر یہ بے چاری ”مظلوم“ تنظیمیں اپنے وابستگان کے لئے روٹی پانی اور مالکان کیلئے آمدنی کا یہ حلال راستہ اختیار نہ کریں تو پھر کیا کریں۔ اب یہ الگ مسئلہ ہے کہ یہ چندہ بھی بزور طاقت ہی وصول ہوتا ہے اور مخالفین اسے بھتہ یا تاوان جیسے رکیک ناموں سے پکارتے ہیں۔ اور ہم جیسے غریب لوگ ....
کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا
کیوں تم کو دیکھتے ہی دل کھو گیا ہمارا
اس خوف سے گنگنانے لگتے ہیں کہ حقیقت میں جب ان تنظیموں کے باشرع ارکان نہایت خشوع و خضوع سے کسی دکان یا کاروباری ادارے سے تاجران سے قوت ایمانی کے تحت تقاضا تعاون کرتے ہیں تو خود بخود آنکھوں کے سامنے کلاشنکوف یا راکٹ لانچر بردار ایک صورت حواس پر چھا جاتی ہے اور ہاتھ خود بخود مشینی انداز میں جیبوں میں چلا جاتا ہے یا تجوری میں۔ اب ان کالعدم تنظیموں میں صرف مذہبی ہی نہیں ہیں جو اس کارخیر کے جواب میں جنت میں داخلے کا مژدہ سناتی ہیں اب تو ہر سیاسی و سماجی تنظیم نے بھی ”اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے“ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی اپنی چندہ وصول ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو نہایت مودبانہ انداز میں اگر خود حاضر نہیں ہو سکتیں تو صرف ایک عدد رقعہ بھیج کر آپ کو اپنے مال سے انسانوں کی خدمت اور پارٹی کی فلاح و بہبود کیلئے مالی ایثار کی طرف مائل کرتی ہے بصورت دیگر ان کے سدھائے ہوئے کاریگر قسم کے کارکن خود آکر آپ سے یہ چندہ جسے چاہے کوئی بھتہ کہے یا تاوان‘ لے کر یوں جاتے ہیں جسے عید قربان پر ان تنظیموں کے کارکن بکرے کی کھال آپ سے چھین کر لے جاتے ہیں۔