دل تو چاہتا ہے کہ ایسی باتیں ہوں جن سے خوشبو آئے۔ جن میں محبتوں کی حلاوتیں ہوں لیکن ہوتا یہ ہے کہ شکایتوں کے باب کھل جاتے ہیں۔ پیار غصے میں اور غصہ اشتعال میں بدل جاتا ہے نہ منہ سے پھول جھڑتے نہ قلم موتی اگلتا… زبان اور قلم دونوں سے نشتربرسنے لگتے ہیں۔ یہ ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے اور پاکستانیوں کی فطرت ثانیہ! بانو قدسیہ کی ’’راجہ گدھ‘‘ کی کہانی نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر شخص مایوس اور خفا ہے۔ ماحول میں کرپشن کی آلودگی‘ ذہنی پراگندگی‘ نفسا نفسی کی یلغار‘ امیر بننے کا بھوت‘ بددیانتی کی ہوس اور اقتدار کا جبر ہے۔ پاکستان اس لئے ایک ناکام ریاست ہے کہ یہاں سسٹم کمزور ہے۔ پاکستان میں جمہوریت مسلسل فیل ہوتی آرہی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کامیاب ہے۔ مارشل لاء دور میں امن سکون اور استحکام قائم رہتا ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی قابو میں رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کا خاتمہ ہوتا ہے لیکن ہر کامیاب مارشل لاء کا انجام لعن طعن رہا ہے۔ ہر آمر نے اپنے اقتدار حکوت میں پاکستان کو کئی لعنتوں اور پریشانیوں سے بچائے رکھا ہے لیکن ہم جس رٹا سسٹم کی پیداوار ہیں‘ وہاں ہر آمریت کے اختتام اور جمہوریت کے آغاز پر ہر آمر کو گالیاں دینے اور ملعون و مطعون قرار دینے کا رواج ہو گیا ہے۔ عوام بھی وہی زبان بولتے ہیں جو پاکستان کے نام نہاد و جمہوری حکمرانوں کے بیانات اور اشتہارات بولتے ہیں۔ پھر جمہوری دور کا زیادہ حصہ آمر کو کوستے کاٹتے اور سزائیں دلاتے یا اس کی خامیاں گنواتے گزر جاتا ہے۔ ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق‘ پرویز مشرف سبھی کا ایک سا انجام ہے۔ ان چاروں ڈکٹیٹروں کے دور حکومت کی تین بڑی خوبیاں مشترک تھیں۔ ایک یہ کہ انکے عہد حکومت میں امن و امان تھا۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے مسائل جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں سو گنا کم تھے۔ پاکستان سفارتی سطح پر کمزور‘ بے بس اور حقیر نہیں تھا… لیکن جمہوری حکومتوں نے آتے ہی پاکستان کی خود مختاری کو ضرب لگائی اور پاکستان کو مقروض اور مفلوک بنایا۔ یہی ایک حقیقت ہے باقی جمہوری حکومتوں میں سب فسانہ اور من گھڑت کہانیاں یا سلطان راہی والی بڑھکیں رہی ہیں۔ جمہوری حکمران جو کہتے ہیں‘ وہ کبھی کرکے نہیں دکھاتے اور جو کچھ وہ کہتے نہیں‘ وہی پس پردہ کر جاتے ہیں۔ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر سننے کیلئے پہاڑ جیسا ظرف چاہئے۔ پاکستان کی ناکامیوں میں تین بڑی وجوہات ہیں جنہیں مان لینا اور پھر انکی اصلاح کر لینا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں حکمرانوں کے اندر حب الوطنی کا فقدان اور اقتدار سے چمٹے رہنے کے جنون نے پاکستان کی سالمیت‘ خود مختاری‘ ترقی اور کامیابی کو مخدوش کیا ہے۔ افلاطون نے کہا تھا کہ جیسے عوام ویسے حکمران لیکن یہاں یہ صورتحال ہے کہ جیسے حکمران ویسی عوام!! خود غرضی‘ ریاکاری اور طمع و حرص دوسری بڑی اور بدترین وجہ ہے جبکہ تیسری وجہ جھوٹ‘ کام چوری اور ہر قسم کی کرپشن ہے۔ ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفادات کو خطرے میں ڈال دینا پاکستانیوں کی سرشت کا حصہ بن چکا ہے۔ ان تینوں کی وجہ سے آج ہم اپنی تباہی پر بین کر رہے ہیں لیکن ’’سبق‘‘ نہ سیکھنا بھی ہماری گھٹی میں شامل ہے۔ حال ہی میں پنجاب حکومت نے ایچ ای سی (HEC) کا صوبائی سطح پر اجرا کرنے سے متعلق اعلان جاری کیا تو نجی و سرکاری سطح کی جامعات کے وائس چانسلروں نے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمشن کے قیام کی باقاعدہ مخالفت کر دی۔ اسلام آباد میں ملک بھر کی نجی و سرکاری جامعات کے وائس چانسلروں نے صوبائی سطح پر ایچ ای سی کے قیام کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن مرکز میں ہی رہنا چاہئے۔ اسے صوبائی سطح پر قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تجویز میاں شہباز شریف کی تھی۔ صوبائی سطح پر اس کا قیام یقیناً خوش آئند ہے۔ شہباز شریف نے دیگر وزرائے اعلیٰ کی نسبت زیادہ بہتر اور مدبرانہ فیصلے کئے ہیں۔ مخالفت کرنیوالوں کو آخر کس بات کا خوف ہے؟ کیا اس کا کہ انکی اجار داری اور عمل داری ختم ہو جائیگی؟ اپنی مناپلی اور اپنے عہدوں میں سانجھے کے خوف سے صوبائی سطح پر اسکی مخالفت کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کھا جانیوالے اس ملک گیر ادارے نے مرکز میں کونسے مستحسن اور طاقتور اقدامات کئے ہیں۔ مرکز میں چاروں صوبوں کی کیا نمائندگی کی جا رہی ہے۔ تعلیمی حوالے سے ایچ ای سی کی کارکردگی غیر منظم ہے۔ ممکن ہے کہ میاں شہباز شریف کی کارکردگی میں ایچ ای سی ایک ڈیڈ باڈی سے فعال اور متحرک ادارہ بن جائے۔ پنجاب جیسے بڑے اور تعلیم کے ایسا صوبے کیلئے ایچ ای سی کا صوبائی سطح پر قیام مستحسن ثابت ہو گا۔ پاکستانی طالب علموں اور اساتذہ کیلئے ملک بھر کے دور افتادہ علاقوں سے آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر صوبائی سطح پر ایچ ای سی قائم ہو گا تو بہت سے مسائل کا حل آسانی سے نکل آئے گا اور عوام کا وقت بھی بچے گا۔ تعلیم کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں جس سے پاکستانی عوام کے دل دماغ کو بدلا جا سکے۔ میاں شہباز شریف نے شہنشاہ شاہجہان کی طرح پنجاب میں سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے اور گرین بیلٹس‘ پل اوور‘ انڈر پاس‘ دیگر تعمیرات سے لاہور کا نقشہ بدل دیا ہے اور جدید طرز کی بسیں چلا کر عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہے۔ صوبائی سطح پر تمامتر مخالفت کے باوجود ایچ ای سی بھی قائم کرکے وزیراعلیٰ پنجاب دکھا دیں گے لیکن دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ایچ ای سی میں واقعی اہل اور لائق لوگ مقرر کئے جائیں جو اس وژن کو لیکر چلیں کہ تعلیم انسان کے کردار و عمل کو یکلخت بدل دیتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اتنی مہنگی تعلیم اور اتنی جانفشانی سے علم حاصل کرنیوالوں کا مستقبل پاکستان میں تاریک نہیں ہونا چاہئے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کی علمی ادبی خدمات سے استفادہ کرنا چاہئے تاکہ سچ مچ پاکستان کی تقدیر بدل سکے …؎
اس زمیں سے یا آسماں سے ملے
روشنی چاہئے جہاں سے ملے
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024