گزشتہ ہفتے حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے زیر اہتمام ’’خبروں میں سنسنی خیزی کا بڑھتا ہوا رجحان، میڈیا کے پیشہ ورانہ تقاضے‘‘ کے موضوع پر سیمینار منعقد کیا گیا۔ابصار عبدالعلی نے حسب ِسابق موضوع کاتعارف کراتے ہوئے کہا کہ جو اخبارات اور ٹی وی چینل نظریاتی، اخلاقی اور عوام کی کردار سازی کے تقاضوں کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے، وہ خبروں کے بنیادی پیشہ ورانہ تقاضوں کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔ ان تقاضوں میں سنسنی خیزی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ یہ سنسنی خیزی ارادتاً لفظوں سے بھی پیدا کی جاتی ہے اور نیوز اینکر کے خبریں پڑھنے کے انداز سے بھی اس میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ بریکنگ نیوز کے نام پر ٹیلپ دے کر اور جاری پروگراموں کو اچانک روک کر ایک ایسی خبر نشر کی جاتی ہے جس کی خبریت بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ افواہ ہی معلوم ہوتی ہے۔ نیوز اینکر اسے کم از کم دس پندرہ مرتبہ ڈرامائی انداز میں دہراتا ہے۔
سیمینار کی صدارت وزیر مال و خوراک پنجاب بلال یاسین نے کی۔ مہمانانِ خصوصی تجزیہ کار سہیل وڑائچ اورادیب جاودانی جبکہ مقررین میں سینئر صحافی تاثیر مصطفی اور فضل حسین اعوان کانام شامل تھا۔عین موقع پر دفترکی مصروفیت کے باعث میری شرکت ممکن نہ رہی تاہم اپنی گزارشات کو تحریری شکل دیدی تھی ۔یہ تحریر سیمینار سے قبل ابصار عبدالعلی تک پہنچا دی گئی ؛جدید دور میں جہاں ہر شعبہ زندگی میں بے مثال ترقی ہوئی وہیں میڈیا بھی اس سے مستفید ہوا۔ بڑے بڑے پروفیشنل سے غلطی کا احتمال رہتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے لیکن غیر تربیت یافتہ لوگوں سے پروفیشنلز کی طرح کے کردار و کارکردگی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ میڈیا میں ارتقائی ترقی تو ہوئی تاہم مشرف دور میڈیا میں ترقی کے حوالے سے عروج کا دوررہا۔ چند چینلز میں درجنوں کا اضافہ ہوا۔ وقفے وقفے سے نئے اخبارات بھی سامنے آتے رہے۔ جتنے میڈیا پرسنز کی ضرورت تھی اتنے دستیاب نہیں تھے ،یوں اس شعبے میں غیر تربیت اور نیم تربیت یافتہ لوگ بھی در آئے۔ ان کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا لیکن جو اپنی صلاحیتوں کے مطابق بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتے تو بھی معیار تربیت یافتہ لوگوں جیسا نہیں ہو سکتا۔ پھر ریٹنگ کی دوڑ میں پیشہ وار لوگ شامل ہوئے تو میڈیا پر ہیجان پھیلانے کا الزام آیا جو بڑی حد تک درست بھی ہے لیکن اس کی آڑ میں میڈیا کو کلی طورپر مطعون کرنا بھی درست نہیں۔ بعض بڑے نام کے صحافی ذاتی مفاد یا اپنے نظریات کو دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ تین چار لوگوں کے مذاکرے یا ٹاک شو میں اینکر کو غیر جانبدار ہو کے بیٹھنا چاہئے عموماً ایسا نہیں ہے۔ ایک اینکر مشرف سے دشمنی یا دوستی کے جذبات کا اظہار کرکے آغاز کرتا ہے۔ مہمانوں سے باقاعدہ خود بحث کرتا ہے۔
گزشتہ دنوں خصوصی عدالت کے جج فیصل عرب نے مشرف کا مقدمہ سننے سے انکار کیا۔ یہ خبر ٹی وی پر چلی۔ بنچ ٹوٹنے کا تاثر بھی قائم ہوا ماہرین نے ایسا ہی کہا تھا میڈیا نے سنسنی نہیں پھیلائی یہ بذات خود سنسنی خیز خبر تھی جو چلتی رہی شام کو فیصل عرب نے پھر بنچ میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا۔ کہا جاتا ہے چودھری نثار اور جسٹس افتخار فیصل عرب سے ملے اور منظرنامہ بدلتے بدلتے رہ گیا۔اس سینہ گزٹ میں صداقت نہیں ہو سکتی لیکن سنسنی ضرور موجود ہے۔ آج مشرف عدالت میں پیش ہوئے۔ میڈیا تجزیاتی رپورٹیں نشر اور شائع کر رہا ہے اس میں سنسنی کا پہلو موجود رہے گا۔ اس کے باوجود بھی بعض میڈیا پرسنز غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میڈیا کا کام معاشرے، بیوروکریٹس، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو آئینہ دکھانا ہوتا ہے جب میڈیا کے لوگ حکومت کا حصہ بن جائیں گے اعلیٰ عہدے قبول کر لیں گے تو پھر وہ کیسے ان اداروں کی غلط پالیسیوں پر بات کر سکیں گے۔ ایسے لوگ ہی صحافت کی کالی بھیڑیں ہیں۔ان کا نوٹس لینا ہو گا اور ان کو صحافت سے ہمیشہ کے لئے نکال باہر پھینکنا ہو گا جس طرح ایک ڈاکٹر اور وکیل کو پیشہ وارانہ خیانت پر اپنی برادری سے نکال دیا جاتا ہے۔ صحافی اپنے اوپر سیلف سنسر لگا لیں تو بھی میڈیا میں کافی حد تک صفائی ممکن ہے۔ ایک سیلف سنسر شپ ہمیں گزشتہ دنوں ایک تقریب میں نظر آئی جس میں کلدیپ نیر سے سوال و جواب کا سیشن تھا۔کشمیر کے حوالے سے ایک سوال پر کلدیپ نیر نے کہا کہ اندر کمار گجرال میرے دوست تھے۔ وہ اور نواز شریف ملے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کشمیر پر کیا بات ہوئی۔وزیر اعظم گجرال کا کہنا تھا نواز شریف نے کہا ہے کہ گجرال صاحب نہ آپ ہمیں کشمیر دیںگے نہ ہم آپ سے کشمیر لے سکتے ہیں۔۔۔ الحمرا ہال میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا موجود تھا۔ یہ خبر کسی نے شائع کی نہ نشر کی محض اس لئے کہ میاں صاحب ناراض نہ ہوں خود پر سیلف سنسر شپ لگا لی۔ یہی رویہ اگر قومی اور معاشرتی معاملات میں ہو تو یقیناً میڈیا ان خرافات سے پاک ہو سکتا ہے جس کا اس پر جائز یا ناجائز الزام لگتا ہے۔
بلال یاسین نے اپنے خطاب میںکہا کہ میڈیا کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں جب تک خبر میں سنسنی نہ ہو لوگ اسے خبر ہی نہیں سمجھتے۔ میڈیا اگر قوت ایمانی کے ساتھ فرائض سرانجام دے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اگر میڈیا سیاستدانوں کو نہ جھنجھوڑے تو کام نہیں چلتا۔ جو سیاستدان دو نمبریاں کرتے ہیں ان کے خلاف سنسنی خیزی ہونا چاہئے۔ ادیب جاودانی نے کہا کہ خبروں میں سنسنی لوگوں کی ڈیمانڈ ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ سنسنی خیزی صحافت کا ایک حصہ ہے۔ ہم نے لوگوں کو جگانا ہے۔ کوئی میڈیا اپنی سوسائٹی سے بغاوت کرکے نہیں چل سکتا۔ میڈیا اختلاف رائے کا نام ہے۔ پہلے مارشل آتا تو سب خوش آمدید کہتے لیکن آج ایسا نہیں۔ میڈیا نے لوگوں میں شعور پیدا کیا۔ تاثیر مصطفی نے کہا کہ آج کے میڈیا کے ساتھ سنسنی خیزی نتھی ہوگئی ہے۔ سنسنی کے بغیر میڈیا مکمل نہیں ہوتا۔ یورپ میں بھی سنسنی خیزی موجود ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024