منشیات فروشوں کو پولیس کی سرپرستی
پاکستان میں منشیات کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، والدین کی عدم توجہ، بے راہ روی، بیروزگاری،ڈیپریشن سمیت دیگر وجوہات کی بناء پر ابتداء میں وقتی سکون کی خاطر نشہ کا سہارا لینے والے عادی ہونے پر آہستہ آہستہ موت کی وادی میں اتر رہے ہیں ، ہیروئن، چرس، افیون ، گانجا، شراب، صمد بونڈ، نشہ آور سیرپ اور انجکشنوں کے ذریعہ نشہ ابتک ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرنے کے ساتھ ہنستے بستے گھرانے بھی اجاڑ چکا ہے۔پڑوسی ملک افغانستان سے ہیروئن ، چرس سمیت منشیات کی دوسری اقسام کی پاکستان میں سمگلنگ کے باعث آج پشاور اور اس کے گردونواح کی طرح لاہور، گوجرانوالہ، اوکاڑہ، حافظ آباد سمیت دیگر شہروں میں منشیات کی ہر قسم باآسانی دستیاب ہے کیونکہ اس غیرقانونی اور انسانیت کش کاروبار میں منشیات فروشوں کو پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی سرپرستی اور مکمل آشیر باد حاصل ہے۔ منشیات کی با آسانی دستیابی کے باعث ہی نوجوانوں کے علاوہ کم عمر لڑکے اور لڑکیاں تک بھی اس لعنت کاتیزی سے شکار ہو رہے ہیں۔ جبکہ اکثر منشیات کے عادی افرادنشہ انتہائی مہنگا ہونے کے باعث خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اس لیئے وہ اپنی ’’ضروریات‘‘ پوری کرنے کے لئے چوری ، ڈکیتی سمیت دیگر سنگین نوعیت کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں چرس پینے کی عادت تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور اس میں نہ صرف متوسط طبقہ کے نوجوان بلکہ متمول گھرانوں کے چشم و چراغ بھی شامل ہیں اور ایسے لوگ چرس پینے کو نشہ تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف انجکشنوں کے ذریعے نشہ کرنیوالوں کی اکثریت ایڈزسمیت دیگر مہلک امراض کا شکار ہو رہی ہے ۔ اس حوالے سے ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لئے کینیڈا کے بین الاقوامی ادارے ’’ سی آئی ڈی اے‘‘ کے تعاون سے مرتب کردہ ایک جائزہ رپورٹ ہی کافی ہے جس کے مطابق پاکستان کی 180ملین کی آبادی میں سے 4لاکھ 20ہزار افراد انجکشنوں کے ذریعے نشہ اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں۔ منشیات کے عادی تقریبا 4ملین افراد بھنگ یا گانجا، ایک فیصد افیون اور ہیروئن استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ چرس کا استعمال بھی کسی طور کم نہیں ہورہا ۔عالمی ادارہ صحت نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ایڈز جیسا مہلک مرض انجکشنوں کے ذریعے منشیات استعمال کرنیوالوں کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ چونکہ ایسے نشئی ایک دوسرے کی ایچ آئی وی سے متاثرہ سرنجیں استعمال کرتے ہیں اس لیئے ان افراد کے ذریعے ایڈز کا دوسرے شہروں تک پہنچنے کا خدشہ موجود ہے۔ خیبر پی کے دارلحکومت پشاور میں انجکشنوں کے ذریعے نشہ کرنیوالے 20افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ اس صورتحال کے تدارک کے لئے زیادہ سے زیادہ خصوصی تھیراپی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ART کہلانے والے اس طرح کے پاکستان میں صرف 13مراکز قائم ہیں اور ان میں ابتک 5ہزار افراد کا علاج کیا جا چکا ہے۔دوسری طرف پولیس اور اینٹی نارکوٹیکس فورس کے اعلیٰ حکام کومئوثر لائحہ عمل اپنا کر دولت کی خاطر بھیانک دھندہ کرنیوالے موت کے سوداگروں کیخلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے اور اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کی سرپرستی کرنیوالے افسروں اور اہلکاروں کو بھی کیفرکردار تک پہنچانا چاہئے۔حکومت ہر ضلع میں نشہ سے نجات کے بحالی سنٹرز کا قیام عمل میں لا کر موت کی راہ پر چلنے والوں کو زندگی کی طرف لوٹنے کے مواقع فراہم کر سکتی ہے۔جبکہ نوجوان نسل کے مستقبل کو بچانے کیلئے معاشرے کے ہر طبقہ کوبھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔