ڈیموں کی تعمیر میں حکومتی غفلت
ماہ مارچ کے تیسرے عشرے میں پانی کا عالمی دن منایاگیا،جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر ذاکر حسین نے یونیورسٹی میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان زرعی ملک ہے۔ زراعت قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈ ی کی حیثیت رکھتی ہے زراعت کو زندہ رکھنے کیلئے ہمیں آبپاشی کے نظام کو بدلنا ہوگا بارش کے پانی کا ضیاع روکنے اور خشک سالی کے وقتوں میں ذخیرہ شدہ پانی کا استعمال کرنے کیلئے ملک میںزیادہ سے زیادہ ڈیمز کی تعمیرکرناہوگی۔ مارچ کے آخر دنوں میں بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر اور ایوان بالا (راجیہ سبھا) کے رکن ڈاکٹر منوہر سنگھ گل بھی ان دنوں فیصل آباد کے دورے پرآئے ہوئے تھے انہوں نے بھی اپنے خطاب میں پانی سے فصلوں کو سیراب کرنے کی اہمیت کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے مابین رابطوں کو بڑھانے اور اپنی دانشمندانہ بہت سی باتیں کیں۔ انہوں نے کہاآج گھریلو‘ انڈسٹریل اور زرعی سطح پرپانی کاصحیح استعمال کرکے زیرزمین پانی کی مزید نیچے ہوتی ہوئی سطح کو اس کی موجودہ سطح پر روکا جاسکتاہے۔ ڈاکٹر منوہر سنگھ گل نے بھارت کی زراعت میں 12لاکھ ٹیوب ویلوں کے لگانے سے زمینی پانی کی سطح نیچے ہونے کی بات تو کی لیکن انہوں بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کے حصے کے دریائوں پرمقبوضہ کشمیر کے علاقوں میں60فیصد سے زائد ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے‘ ان دریائوں کے پانی کارخ بھارتی زمینوں کی سیرابی کیلئے موڑنے کی بات نہیں کی جبکہ پاکستان کاالمیہ یہ ہے کہ اس کی حکومتوں میں دریائوں پرڈیموں کی تعمیر کے سلسلہ میں خوفناک حد تک غفلت سے کام لیا، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں فصلوں کونہری پانیوں سے سیراب کرنے کے خواب کو بدستور سیراب کرتے رہنے کی تعبیر دیناممکن نہیں رہا۔ نشیبی علاقوں کی طرف بہنے والے دریائوں کے ذریعے ریاست جموں وکشمیر کی پاکستان کی شہ رگ قرار دیا جا چکاہے۔ کشمیر سے بہہ کرآنے والے دریائوں کاپانی ہماری قومی زراعت کی رگوں میں دوڑنے والا لہو ہے،بھارتی حکومت نے پاکستانی دریائوں پر نت نئے ڈیموں کی تعمیر سے پاکستانی زراعت کی رگوں میں سے لہو نچوڑنے کا اہتمام کرلیاہے۔ فیصل آباد کو دریائے چناب سے نکلنے والی تین نہروں کے پانیوں سے سیراب کیاجاتاہے ان میں سے رکھ برانچ نہ صرف شہر میں سے گزرتی ہے بلکہ یہ ضلعی حدود میں ٹیل بن کر ختم ہوجاتی ہے اس وقت ضلع فیصل آباد کے زمینداروں ،کسانوں کو نہری پانی کی شدید قلت ہے۔ زیادہ تر علاقوں کا زمینی پانی‘نمکیات کی شدت کے باعث فصلوں کو سیراب کرنے کیلئے مناسب نہیں،زیر زمین پانی کی سطح نیچے ہورہی ہے زرعی سائنسدان کی اکثریت اس بات کے حق میں ہے کہ دریائوں وڈیموں کی زیادہ سے زیادہ تعمیرکرکے بارش کے پانی کاذخیرہ کریں جن دنوں دریائوں میں پانی کی قلت ہو ‘ ڈیموں کے پانی سے فصلوں کو سیراب کیاجائے۔ ملک کے دریائوں میں زیادہ تر پانی شمالی گلیشئرز کاہوتاہے جن کی مقدار ایک اندازے کے مطابق138.4 ملین ایکڑ فٹ ہے ۔نہروں تک پہنچنے کے دوران پانی کی رفتار کم ہو کر 95ملین ایکڑ فٹ رہ جاتی ہے جوکھیتوں تک پہنچتے پہنچتے مزید کم ہوجاتی ہے ۔ بارش کا تقریباً180 ملین ایکڑ فٹ پانی مختلف علاقوں میں برستا ہے جس میں سے25 ملین ایکڑ فٹ پانی کھیت کھلیان کو سیراب کرتاہے جبکہ باقی پانی کو ذخیرہ کرنے کاانتظام نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کی شکل اختیار کرجاتا ہے
ماہرین کے مطابق 1960 کے سندھ طاس معاہدہ کی وجہ سے پاکستان کی طرف بہہ کرآنے والے تین دریا‘ راوی ‘ بیاس اور ستلج انڈیاکو دے دیئے گئے جس وجہ سے کسان پانی کو ترس گئے۔ وہ ٹیوب ولز کے ذریعے فصلوں کو سیراب کرتے ہیں ملک کے اکثر علاقوں میں زیر زمین پانی فصلوں کے لئے ناکارہ ہوتاہے ۔ زرعی سائنسدانوں نے بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے زیر زمین پانی کو کامیاببنایاہے۔ کلیہ زراعت زرعی یونیورسٹی کے سابق ڈین ڈاکٹر طاہر حسین نے بائیوآب دریافت کرکے‘ پانی کی تھوڑی مقدار کو ٹیو ب ولز سے پانی کو فصلوں کو سیراب کرنے کے قابل بنایاہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین بھی زرعی سائنسدان ہیں زرعی یونیورسٹی کی کلیہ ایگری اکنامکس اور رورل سوشیالوجی کے ڈین رہ چکے ہیںزراعت کی اہمیت کی بہتر پیداوار کیلئے حقیقی مسائل سے آگاہ ہیں، پاکستان کی حکومتوں نے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے اقدامات نہ لئے تو پاکستان پانی کی قلت کے باعث صومالیہ بن جائے گا ۔ تھر میں بارشیں نہ ہونے اور آبپاشی کیلئے پانی کی عدم رسائی کانتیجہ پوری قوم نے دیکھ لیا، پانی کی عدم دستیابی انسانی زندگیوں کیلئے موت کی صورت اختیار کرتا گیا۔ اس وقت پاکستان تیزی سے تاریخ کے شدید ترین پانی کے بحران کی طرف بڑھ رہاہے ۔ پانی کی قلت سے فصلوں کی کاشت و کاعمل رک جاتاہے دوسری طرف کراچی جیسے شہروںمیں پینے کے پانی کی ضرورت بھی پوری نہیں ہوتی۔ ہمارے حکمران بھارت کوپسندیدہ ترین ملک قرار دینے کیلئے بے چین نظر آتے ہیں ان کا اصل چہرہ یہ ہے کہ وہ کشمیر کے دریائوں کے پانی کوڈیموں میں ذخیر کرکے‘ پاکستان کو شدید بحران سے دو چارکررہے ہیں جب بحران بڑھے گا ہمارے عوام بیروزگاری اور توانائی سمیت مسائل اورمشکلات کوبھلا دیں گے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے نپٹنے کیلئے فوری طورپراقدامات نہ کئے گئے تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا ۔دونوں ممالک کی حکومت کو جنگلات کی کٹائی بند کرنے کے علاوہ متنازعہ ڈیموں کامسئلہ حل کرناچاہئے،ڈاکٹر منوہر سنگھ اپنے مشاہدات کے پیش نظر پاکستان میں پانی کی کمی کے حوالے سے بھارت میں جا کر بات کرنی چاہئے کہ اگر دونوں ممالک میں ڈیموں کا تنازعہ بڑھا اورپاکستان کے حصے کا پانی‘ بھارتی ڈیموں میں ذخیرہ کرنے کاسلسلہ جاری رہا تو ان دونوں ممالک میں آئندہ جنگ پانی پرہوگی۔ پاکستان اپنے90فیصد آبی وسائل زراعت کے لئے استعمال کررہاہے جس کا بڑا حصہ عمر رسیدہ نظام کے سبب ضائع ہورہاہے جبکہ35ملین ایکڑ فٹ پانی ناقص منصوبہ بندی اور ملک میں ڈیموں کی کمی کے باعث سمندر برد ہوجاتاہے۔ پانی کوسائنسی خطوط پر استعمال نہ کرنے سے ہم ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں برابر مقدار کی فصلوں کیلئے چار گنا زیادہ پانی استعمال کررہے ہیں۔ ہر سال سیلاب سے لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں وہاں پانی کی کمی حیران کن اور تکلیف دہ ہے۔ ملک کی ساٹھ فیصدآبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ۔ پانی کے شعبہ کو مزید نظر انداز کیاگیا تو آنے والی نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ جو قوم اپنے وسائل کے بارے میں بے رحم ہو وہ عملاً خودکشی کے راستے کاانتخاب کرلیتی ہے۔ ان حالات میں جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے درست کہاہے کہ ہمارا آبپاشی نظام بہت پراناہے‘ ہمیں اس کو از سر نو تعمیرکرناہوگا ۔ حکومت اس سلسلہ میں میں زرعی یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے ساتھ ساتھ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے سائنسدانوں پرمشتمل کسی کمیٹی سے سفارشات لے کر اس نظام کو بدلنے کیلئے عملی اقدامات لے سکتی ہے۔