آج یوم ختم نبوت ہے اسلامی تاریخ کا یادگار اور روحانی دن جب 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی منتخب پارلیمینٹ نے 13 دن کی بحث اور جرح کے بعد ناموس رسالت اور ختم نبوت کا نوے سالہ پرانا مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک آئینی ترمیم کرکے آئین کے آرٹیکل 260 کی شق نمبر 3 کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ متحدہ ہندوستان میں برطانیہ نے ایک کمشن تشکیل دیا تھا جس نے ہندوستان کا سروے کر کے برطانوی حکومت کو سفارشات پیش کیں کہ ایک ایسے شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا جائے جو جہاد کو حرام قرار دے اور برطانوی حکومت کی اطاعت کا فتویٰ جاری کرے۔ اس مقصد کے لئے ڈی سی آفس کے کلرک مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب کیا گیا جس کا والد انگریزوں کا وفادار تھا اور اس نے 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران انگریزوں کو پچاس گھوڑوں کا تحفہ دیا تھا۔ جب مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا تو عالم اسلام میں غصے اور تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مرزا غلام احمد کا دعویٰ جھوٹا اور بے بنیاد تھا کیونکہ قرآن اور سیرت کا پیغام ختم نبوت کے سلسلے میں بڑا واضح اور دو ٹوک ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے" محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں اور وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں"حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب نبوت اور رسالت کا سلسلہ منقطع ہوچکا لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا( ترمزی )
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں تیس اشخاص کذاب ہوں گے ان میں ہر کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا( ترمزی )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلیمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں اس جھوٹے نبی کے خلاف جنگ کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ قرآن اور سیرت کے مطابق دین مکمل ہو چکا اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک اور کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ مسلم اُمہ کا اس پر مکمل اتفاق اور اجماع ہے۔ پاکستان میں 1953ء میں ختم نبوت کی جاندار تحریک چلائی گئی جس کے دوران ایک رپورٹ کے مطابق دس ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے عطاء اللہ شاہ بخاری‘ مولانا محمد علی جالندھری‘ مولانا غلام غوث ہزاروی‘ مولانا احمد علی لاہوری‘ مولانا مفتی شفیع اور آغا شورش کاشمیری اس تحریک کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ 1974 میں چناب ایکسپریس ربوہ سٹیشن پر پہنچی تو احمدی نوجوانوں نے ملتان نشتر کالج کے طلبہ پر حملہ کر دیا کیوں کہ انہوں نے قادیانی لٹریچر لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پورے پاکستان میں ختم نبوت کے سلسلے میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے جو شدت اختیار کر گئے۔ ان حالات کے پیش نظر مولانا شاہ احمد نورانی اور وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے پارلیمنٹ میں قراردادیں پیش کیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ قادیانیوں نے 1970ء کے انتخابات میں پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کی کھل کر حمایت کی تھی۔ امریکہ اور برطانیہ بھی بھٹو صاحب پر دباو ڈال رہے تھے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہ دیا جائے۔ لہٰذا پی پی پی کے لیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا آسان کام نہیں تھا۔ پاکستان کے نمائندہ علماء کے وفد نے مولانا مفتی محمود کی قیادت میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور بڑے جذباتی انداز میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ مذہبی راہنماؤں نے کہا کہ بھٹو صاحب اگر آپ ختم نبوت کا مسئلہ حل کر دیں تو آپ کو تاریخ میں محافظ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور ہم عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے غلام ہونے پر فخر محسوس کریں گے۔
اس وفد میں آغا شورش کاشمیری بھی موجود تھے۔ ہفت روزہ چٹان 29 اکتوبر 1977ء کی ایک رپورٹ کے مطابق عاشق آغا شورش کاشمیری نے روتے ہوئے اپنی جھولی پھیلا کر کہا "بھٹو صاحب میں آپ سے ختم نبوت کی بھیک مانگتا ہوں آپ میری زندگی کی تمام خدمات اور نیکیاں لے لیں میں خدا کی بارگاہ میں خالی ہاتھ چلا جاؤں گا، آپ ناموس رسالت اور ختم نبوت کی حفاظت کر دیں یہ میری جھولی نہیں ہے بلکہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی ہے جن کی ناموس پر قادیانی حملہ آور ہوئے ہیں" ۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کے مذہبی رہنماؤں کے مطالبہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد ان کے مطالبے کو تسلیم کر لیا اور آئینی ترمیم کرکے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی جتنی خدمت بھٹو صاحب نے کی اور کوئی حکمران اسلام کی اس قدر خدمت نہ کر سکا۔
1977ء میں جب بھٹو صاحب نے انتخابات کا اعلان کیا تو پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں پی این اے میں شامل ہو گئیں جسے امریکہ کی آشیر باد حاصل تھی۔ انتخابات کے میں شکست کھانے کے بعد پی این اے نے نظام مصطفیٰ کے نام پر پی پی پی کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان پر مارشل لاء نافذ کیا یا تو مذہبی جماعتیں آمر جرنیل کے ساتھ مل گئیں اور جب محافظ ختم نبوت بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو مذہبی جماعتیں بھول گئیں کہ انہوں نے ختم نبوت کے سلسلے میں بھٹو صاحب کو کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر وہ قادیانوں کو کو غیرمسلم قرار دے دیں تو وہ زندگی بھر ان کی غلامی کریں گے۔ پاکستان کی تاریخ ایسی افسوسناک مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما اسلام اور ختم نبوت کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ جہاں تک ختم نبوت اور ناموس رسالت کا مسئلہ ہے یہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے کوئی بھی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ ختم نبوت اور ناموس رسالتﷺ کی گواہی نہ دے۔
جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب اور پی پی پی کو بدنام کرنے کے لئے وائٹ پیپر شائع کرایا جس میں انتخابات میں دھاندلی کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ اس وائٹ پیپر کا جواب بھٹو صاحب نے جیل میں موت کی کوٹھری میں بیٹھ کر تحریر کیا جسے" اگر مجھے قتل کیا گیا "کے نام سے کتابی صورت میں شائع کرایا گیا بھٹو صاحب نے اپنی آخری کتاب میں تحریر کیا کہ سیکریٹری الیکشن کمشن اے زیڈ فاروقی مجھ پر اس لئے دھاندلی کے بے بنیاد الزام لگا رہا ہے کیوں کہ وہ قادیانی ہے اور مجھ سے بدلہ لے رہا ہے کہ میں نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار کیوں دیا۔ اسی نے اپنے قریبی عزیز مسعود محمود پر میرے خلاف سلطانی گواہ بننے کے لئے دباو ڈالا۔ محافظ ختم نبوت بھٹو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پسندیدہ قرار پائیں گے اور جو لوگ ان کی پھانسی کی سازش میں شریک ہوئے ان کو قیامت کے روز شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ختم نبوت ناموس رسالت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ایمان اور عشق اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38