فرقہ ضالہ قادیانیوں کے بانی مرزا غلام احمد نے لگ بھگ 1839ء میں قصبہ قادیاں میں جنم لیا جو ان دنوں بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں واقع ہے۔ اُس کے والد سیالکوٹ کی ضلع کچہری میں اہلمد تھے۔ موصوف نے مروجہ تعلیم جو کہ عموماً عربی و فارسی کی چند کتابوں پر مشتمل ہوتی تھی گھر میں ہی حاصل کی۔ روزی کی تلاش میں نکلا تو کچہری میں منشی ہو گیا۔ دینی مطالعہ کا شوق رکھتا تھا۔ وہ دور مناظروں کا دور تھا، کہیں مشنری مسلمانوں سے کہیں آریہ سماجی مسلمانوں سے ٹکرا رہے تھے۔ بین المسلمین مختلف فرقوں میں بھی مناظرے ہوتے رہے تھے، تب لوگوں میں قوت برداشت تھی، بعض مناظروں میں سامعین کی تعداد ہزاروں سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ مناظرے کا فیصلہ کرنے والا عموماً دوسرے فرقے کا ہوتا تھا جس پر فریقین کو اعتماد ہوتا تھا۔ ایسے مناظر بکثرت دیکھنے میں آتے تھے کہ آریہ سماجیوں اور اہل سنت کے درمیان مناظرے کا فیصل کوئی پادری ہوتا تھا، آریہ سماجیوں اور مشنریوں کے مناظرے کا فیصل کوئی مسلمان ، اُن مناظروں کا یہ پہلو قابل تعریف تھا کہ فریقین بڑے تحمل سے دلائل پیش کرتے، سنتے اور فیصلے پر سرِتسلیم خم کر دیتے، مناظرہ کا انجام کبھی جنگ و جدل پر ختم نہیں ہوتا تھا۔ مناظرہ ختم ہوتا تو سامعین چپ چاپ کمروں کی راہ لیتے۔ ویسے بڑا ہنگامہ پرور دور تھا۔
مرزا غلام احمد قادیانی فطرتاً ذہین تھا (بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ یہ ذہانت مراق میں تبدیل ہو گئی اور موت سے پہلے نبوت کے د عویٰ تک مکمل مالیخولیا میں مبتلا ہو چکا تھا۔) ان مناظروں میں حصہ لینا شروع کیا مسلکاً حنفی تھا ا ور اسلام اور مسلک کے حق میں ہونے والوں مناظروں میں حصہ لیا کرتا تھا۔ خوش قسمتی سے جن مناظروں میں بھی حصہ لیا کامیاب رہا۔ اُس نے کئی مناظروں میں مشنریوں اور آریہ سماجیوں کو بری طرح ہرا کر بڑی شہرت پائی اور بعض علماء نے تو اسے ’’مبلغ اسلام‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ تب یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ آگے چل کر کیا گل کھلانے والا ہے۔ یعنی عقیدہ ختم نبوت میں نقب لگانے والا ثابت ہوگا۔
مرزا نے اپنی تصنیف کتاب البریہ میں اپنے بارے میں یوں لکھا ہے:۔
میرا نام غلام احمد، والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا کا نام عطا محمد اور میرے پردادا کا نام گل محمد تھا ، ہماری قوم مغل برلاس ہے۔ میری پیدائش 1839ء یا 1840ء یعنی سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی۔ ایک اور جگہ اپنی پیدائش -13 فروری 1835ء بھی لکھی ہے۔ ایک اور تصنیف تحفہ قیصریہ میں لکھتا ہے میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ دربار گورنری میں کرسی نشین بھی تھا اور سرکار انگریزی کا ایسا خیرخواہ اور دل کا بہادر تھا کہ مفسدہ (جنگ آزادی) 1857ء میں پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس جوان جنگ جو بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیا دہ گورنمنٹ عالیہ کو مدد دی تھی۔ مرزا غلام احمد کی شہرت 1836 ء میں اس وقت شروع ہوئی جب اس کی ضخیم تصنیف براہین احمدیہ کی پہلی جلد شائع ہوئی اور علماء نے اس کی بڑی پذیرائی کی۔ یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ بقول غلام احمد پرویز مرحوم پہلے چار حصے تو مسلسل شائع ہوئے لیکن پانچویں حصے کو معرضِ التوا میں ڈال دیا یہ حصہ مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد 1908ء میں شائع ہوا۔ پرویز صاحب مرحوم اپنی تالیف ’’ختم نبوت اور تحریک احمدیت ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ التوا دانستہ کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے پہلے چار حصوں میں مرزا نے اپنے آپ کو صوفیائے کرام کی طرح محض ولایت اور کشف و الہام تک محدود رکھا تھا چونکہ اس قسم کے دعوے مسلمانوں کے بیشتر مسالک کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہوتے اس لیے نہ صرف یہ کہ مرزا صاحب کی کوئی مخالفت نہ ہوئی بلکہ ان کی مذہبی خدمات کو سراہا بھی گیا۔
براہین احمدیہ کی اشاعت 1880ء کے بعد قریب بارہ سال تک اُنہوں نے کوئی اور دعویٰ نہیں کیا کہ 1892ء میں یکایک مسیح ہونے کا دعویٰ کر ڈالا، مرزا غلام احمد کے بیٹے اور خلیفہ ثانی میاں محمود احمد نے لکھا ہے تریاق القلوب کی اشاعت تک (جو کہ اگست 1899ء سے شروع ہوئی اور اکتوبر 1902 ء میں ختم ہوئی) اُن کا یہی عقیدہ تھا کہ اُنہیں کو حضرت مسیح پر جزوی فضیلت ہے (نعوذ باللہ) اور آپ کو جو نبی کہا جاتا ہے تو یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے اور ناقص نبوت ہے ۔ پس 1902ء سے پہلے کسی تحریر سے حجت پکڑنا بالکل جائز نہیں ہو سکتا ، دوسرے مقام پر میاں محمود احمد نے لکھا ہے پس یہ ثابت ہے کہ 1901ء سے پہلے کے وہ حوالے جس میں آپ نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اب منسوخ ہیں اور ان سے حجت پکڑنی غلط ہے۔ حقیقتہ النبوۃ ص 121 مصنفہ میاں محمود احمد ۔
اس طرح مرزا کی زندگی کے تین موڑ نمایاں طور پر سامنے آ جاتے ہیں پہلا دور وہ اُمتِ مسلمہ کے مبلغ کی حیثیت سے 1880ء میں شروع کرتا ہے اور کشف والہامات سے زیادہ کوئی دعویٰ نہیں کرتا، 1892ء میں وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور 1901ء میں مستقل نبوت کا جو اُس کی وفات 1908ء تک قائم و دائم رہتا ہے۔ یوں ’’آنجناب‘‘ نے جو ایک زمانے میں مبلغ اسلام کے معزز لقب سے ملقب تھے۔ کفر کی حالت میں جان دی۔
مرزا کی تدریجی نبوت کے مدارج اس طرح ہیں۔ پہلے کشف والہام اور ولایت کے ایسے دعاوی کئے جو مسلمانوں کے نزدیک قابل اعتراض نہ تھے۔ پھر اپنے الہامات میں ایسا ابہام رکھا کہ نظر بہ ظاہر ان میں کوئی بات قابل مؤاخذہ دکھائی نہ دے یوں اُس نے لوگوں کو اپنے بقول ’’بیچ میں پھنسایا‘‘ اور رفتہ رفتہ دعویٰ سے نبوت تک پہنچ گیا۔ اُس کے تدریجی ارتقا سے واضح ہوتا ہے کہ نیت میں شروع سے ہی کھوٹ تھا۔ بس سیڑھی تیار کر رہا تھا ’’براہین احمدیہ‘‘ کی چار جلدوں کی اشاعت سے وہ سیڑھی تیار ہو گئی اور جب اس کا 5 واں ایڈیشن شائع ہوا تو ’’حضرت صاحب‘‘ نے آخری سیڑھی پر چڑھنے میں تاخیر نہ کی۔
مسلمانوں اور مرزائیوں میں بنیادی نزاع مسئلہ ختم نبوت ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک حضور نبی اکرم کا خاتم النبیین ہونا اسلام کا بنیادی مطالبہ اور مسلمانوں کی اساسی شرط ہے۔ ختم نبوت کا منکر بالاتفاق اور بہ اجماع اُمت کا فر ہے لیکن مرزائی حضرات سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ د ینے کے لیے اُٹھتے بیٹھتے حضور نبی کریم کے لیے خاتم النبیین کہتے رہتے ہیں اور جب کوئی اعتراض کرے تو کہتے ہیں کہ ہم بھی خاتم النبیین کے قائل ہیں لیکن ہمارے اور مخالفین (مسلمانوں) کے درمیان اس کے معانی تفہیم و تفسیر میں اختلاف ہے لاحول و لاقوۃ!
جب تک انگریز رہے انگریز اپنے خود کاشتہ پودے کی حفاظت و نگہداشت کی خوب حفاظت کرتے رہے لیکن ان کے جانے کے بعد مسلمانان پاکستان نے ان کو کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دلانے کے لیے کئی تحریکیں چلائیں۔ قربانیاں دیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہاں تک کہ مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو فوجی عدالت نے موت کی سزا تک سنا دی لیکن ختم نبوت کے پروانوں کے شوق شہادت میں کمی نہ آئی۔ مئی 1974ء میں ربوہ سٹیشن پر جو ہنگامہ ہوا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملک گیر صورت اختیار کر لی۔ مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی کہ مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دلانے کا مسئلہ ، قومی اسمبلی میں زیر بحث آیا، طرفین کی طرف سے جید علماء اور سکالروں نے کئی دن تک بحث کی۔ خود وزیر اعظم بھٹو نے اس معاملے میں بڑی لچسپی لی اور قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر احمد سے پوچھا مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے منکر لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے۔ مرزا طاہر احمد نے ایک لمحہ کے توقف کے بغیر کہہ دیا ، وہ کافر ہے۔ بھٹو مرحوم نے کہا میں مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتا میرے بارے میں کیا خیال ہے۔ جواب دیا آپ بھی کافر ہیں۔ بس حُجت پوری ہو گئی۔ قومی اسمبلی نے 7 ستمبر 1974ء کو اس بارے میں تاریخی و آئینی ترمیم منظور کر لی اور صراحت کر دی گئی کہ :۔
جو شخص اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ نبوت کا سلسلہ انبیا کرام کی آخری کڑی محمد رسول اللہ کی ذات پر مطلق اور غیر مشروط طور پر ختم ہو گیا ہے یا جو شخص رسول اللہ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے خواہ وہ اس لفظ کو کوئی معنی پہنائے یا کسی رنگ میں مدعی نبوت ہو وہ اور جو شخص ایسے مدعی نبوت کو نبی یا مذہبی ریفارمر مانے آئین اور قانون کی روسے مسلمان نہیں۔ نیز یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ’’احمدیوں‘‘ کی دونوں جماعتوں (قادیانی اور لاہوری) کو غیر مسلم اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
یوں آج کے دن مسلمانان پاکستان نے ا یک بہت بڑے فتنے کو کچل دیا ، جس کی پیروی متعدد مسلمان ملکوں نے بھی کی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024