جائز اور آئین و قانون کیمطابق مطالبات کی حامل سیاسی تحریک کو غیر آئینی قرار دینایا اسے دہشتگردی ودھونس سے تعبیر کرنا انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے مطابق کو کسی بھی طرح سے ناجائز‘ غیر قانونی یا غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا اور جو لوگ یہ سب کہہ رہے ہیں وہ کئی دہائیوں سے نام نہاد جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہورہے ہیں اور اس کے برعکس عوام فاقہ کشی سے تنگ آکر خودکشی کی طرف جارہے ہیں۔ عمران خان کے دعوے کیمطابق خیبر پختونخواہ میں ایف آئی آر انٹرنیٹ پر گھر بیٹھے درج کرائی جاسکتی ہے جبکہ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار میاں برادران کے صوبے میں 14 بے گناہ‘ معصوم عورتوں بچوں کی ایف آئی آر کاٹنے کیلئے لاکھوں لوگوں کو 20 دن تک کڑی دھوپ و بارش میں اسلام آباد پر دھرنا دینا پڑتا ہے۔ اس بدترین ظلم کے باوجود جمہوریت و قانون کا راگ الاپنے والوں کو شرم آنی چاہئے۔
عمران خان نے الیکشن 2013ء کی پولنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی دھاندلی کا شورمچانا شروع کیا اور پہلے مرحلے میں انہوں نے انصاف وقانون کی فراہمی کے تمام اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انہیں انصاف نہیں مل سکا۔ اسکے بعد انہوں نے پارلیمنٹ میں بار بار حکومت سے صرف 4حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا لیکن انکی بات پر دھیان نہیں دیا گیا تو اسکے بعد انکے پاس واحد راستہ یہی رہ جاتا تھا جو انہوں نے اختیار کیا۔ ہمارا قانون اور انصاف کی فراہمی کا طریقہ کار اس قدر فرسودہ ہوچکا ہے کہ لوگ انصاف کی فراہمی کیلئے مدتوں عدالتوں کے دھکے کھاتے کھاتے مر جاتے ہیں مگرانہیں انصاف نہیں ملتا۔ اسکی ایک مثال 1971ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والے زیدی صاحب کی ہے جو دھاندلی کی بنیاد پر منتخب ہوکر سندھ کے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ بنے اور جب اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کرلی تب جاکر کہیں ٹریبونل سے یہ فیصلہ آیا کہ زیدی صاحب دھاندلی کی بنیاد پر منتخب ہوئے تھے اس لئے انکا انتخاب کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ اس دھاندلی کا فیصلہ اس وقت ہوا جب اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرچکی تھی۔ اسی طرح الیکشن 2008ء میں اٹک کی ایک نشست پر شیخ آفتاب کا ٹریبونل میں کیس بھی الیکشن 2013ء تک حل طلب تھا۔ اس طریقے میں ہی پارلیمنٹ میں موجود سیاسی لوگوں کو فائدہ ہے کیونکہ دھاندلی‘ جعلی ڈگریاں اور کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی ثابت ہونے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ وہ اپنی بطور ممبر پارلیمنٹ مدت پوری کرچکے ہوتے ہیں۔ کیا یہ طریقہ کار آئین ‘ قانون اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کا ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ 3ماہ میں الیکشن کی اپیل پر فیصلہ سپریم کورٹ تک ہوجانا چاہئے تاکہ دھاندلی سے منتخب ہونیوالوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔جنرل ایوب خان کیخلاف تحریک چلائی گئی توکیا وہ بھی غیر آئینی و غیر قانونی تھی؟ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کیخلاف 9 ستاروں کی تحریک مولانا فضل الرحمان کے والد مولانا مفتی محمود کی سربراہی میں چلائی گئی اور انکے بالکل یہی مطالبات تھے جو آج عمران خان کے ہیں۔ اس تحریک میں محمود خان اچکزئی کے والد‘ سعد رفیق کے والد‘ جاوید ہاشمی خوداور کئی نامور سیاسی و مذہبی قائدین شامل تھے۔ آج عمران خان کی تحریک کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دینے کیلئے لمبی چوڑی تقاریر کرنیوالے پھر 1977ء کی بھٹو کے خلاف تحریک کو بھی غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیں۔ اس تحریک کے بعد بھٹو اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات پر مجبور ہوئے اور جب وہ 9ستاروں کی تحریک کے قائدین سے مذاکرات کیلئے گئے تو اپنے ہمراہ اپنے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو بھی لیکر گئے۔ یقینی طور پر جنرل ضیاء الحق اپنی مرضی سے نہیں بلکہ بھٹو کے اصرار پر مذاکرات میں شامل ہوئے اور بالآخر انہوں نے مارشل لاء نافذ کرکے بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھادیا۔
اس بار بھی جنرل راحیل شریف سیاسی معاملات سے مکمل طور پر علیحدہ رہے اور پنجاب سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ مارشل لاء نہیں لگائیں گے اور جمہوریت کو ممکن حد تک کامیاب بنانے کیلئے اپنا بھرپور تعاون کرتے رہیں گے مگر میاں نوازشریف نے آرمی چیف سے ثالثی کی درخواست کی جس کی بنیاد پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سے ملاقاتیں کرکے ثالثی کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے کوششیں شروع کیں لیکن اگلے دن میاں نوازشریف نے قومی اسمبلی میں جھوٹ کہہ کر فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے نہ تو فوج سے ثالثی کا کہا ہے نہ ضامن کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے جس پر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے آئی ایس پی آر سے درخواست کی کہ اس معاملے پر وضاحت کی جائے تاکہ قوم کو علم ہوسکے کہ فوج کو سیاسی معاملات میں کردار کیلئے کس نے موقع فراہم کیا ہے اور آئی ایس پی آر کی جانب سے وضاحت کے بعد وزیراعظم میاں نوازشریف جھوٹے ثابت ہوئے۔ جمہوریت‘ آئین اور قانون کا راگ الاپنے والوں میں اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ جھوٹا ثابت ہونے پر ہی استعفٰی دے دیں۔ حکومت نے اب تک فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور وزیراعظم سمیت وفاقی وزراء ہمیشہ متنازع بیانات دیکر فوج کا مورال گرانے کی سازش کرتے رہے ہیں۔ جیو نیوز کی جانب سے آئی ایس آئی چیف پر الزام تراشی کے بعد حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ہم دلیل والوں کے ساتھ ہیں‘ غلیل والوں کے ساتھ نہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آئین‘ قانون اور جمہوریت کا راگ الاپنے والے کئی دہائیوں سے سیاست پر قابض نااہل‘ کرپٹ سیاسی مافیا کا اصل چہرہ بے نقاب کیا جاسکے اور دھاندلی و معصوموں کے قتل عام کیخلاف ڈاکٹر طاہر القادری و عمران خان کی آئینی و قانونی سیاسی تحریک کو غیر قانونی قرار دینے کا موثر جواب دیا جاسکے۔ حالانکہ سانحہ ماڈل ٹائون کے فوراً بعد میاں نوازشریف اگر منہاج یونیورسٹی جاکر نہ صرف تعزیت کرلیتے بلکہ فوری طور پر ایف آئی آر درج کرکے انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرادیتے تو یقیناً نوبت یہاں نہ پہنچتی۔ اسی طرح عمران خان کے دھاندلیوں کے الزامات پر 4حلقے کھول دیئے جاتے تو بھی معاملات اس قدر سنگین نہ ہوتے لیکن میرے خیال میں دونوں معاملات میں ’’دال میں کچھ کالا‘‘ ضرور ہے اس لئے آخری حد تک سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی جارہی تھی اور اسی طرح انتخابی دھاندلیوںکی تحقیقات بھی نہیں ہونے دی جارہی تھی۔ بہرحال اب تک پارلیمنٹ کے فلور پر جھوٹ بول کر میاں صاحب بے نقاب ہوچکے ہیں اور ملک کا ایگزیکٹیو ایک جھوٹے شخص کو آخر کس طرح بنایا جاسکتا ہے؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024