سات ستمبر پاکستان کا تاریخی دن........ پارلیمنٹ کا ختم نبوت پر تاریخی فیصلہ
علامہ منیر احمد یوسفی
ملکی تاریخ میں 5 ستمبر 1974ءکو بڑی اَہمیت حاصل ہے۔ اِس تاریخ کو تمام مکاتبِ فکر کی اِجتماعی جدوجہد سے قادیانیوں کو اَقلیت قرار دیا گیا۔ اگرچہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد 1953ءسے ہی قادیانیوں کے خلاف تحریک تحفظ ختم نبوت جاری ہو چکی تھی۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنائے جانے سمیت دیگر علمائے کرام کو طویل قید و بند کی سزائیں سنا دی گئیں۔ پھر سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کا واقعہ ہے کہ 22 مئی 1974ءکو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ چناب نگر کے راستے پشاور کے تفریحی سفر پر جا رہے تھے کہ ربوہ ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی ۔جس پر طلبہ نے مشتعل ہو کر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے۔ واپسی پر 29 مئی کو طلبہ کی گاڑی خلافِ ضابطہ ربوہ ریلوے سٹیشن پر روک لی گئی اور مرزا طاہرقادیانی کی قیادت میں سینکڑوں مسلح افرادنے لاٹھیوں‘ سریوں اور برچھیوں کے ساتھ حملہ کر کے 30 نہتے طلبہ کو شدید زخمی دیا۔ اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل ہوا۔ دینی جماعتوں کی اپیل پر پاکستان کے مختلف شہروں میں ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دیا جائے۔ واقعہ کے رد عمل میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل تشکیل دے دی گئی ۔ اس وقت مولانا شاہ احمد نورانی‘ مفتی محمود ، پروفیسرغفور احمد ، نوابزادہ نصر اللہ خان اور مولانا عبدالمصطفیٰ اظہری جیسے علماءاور سیاسی اکابرین قومی اسمبلی میںموجود تھے۔30 جون 1974ءکو قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کے لئے مولانا شاہ احمد نورانی کی جانب سے متفقہ طور پر ایک قرارداد پیش کی گئی جبکہ 44 ممبران قومی اسمبلی کے دستخطوں سے پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کا بل بھی پیش کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے کر بل پر بحث شروع ہوئی تو قادیانی رہنماءمرزا ناصر اور مرزا صدر الدین وغیرہ کو بلا کر یحییٰ بختیار کے ذریعے اُن پر جرح کی گئی۔ ایوان میں طویل بحث کے بعدآخر کار 7 ستمبر 1974ءکو قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے متفقہ طور پر وزیر قانون عبدالحفیظ پیر زادہ کے ذریعے آئینی ترمیم پیش کی گئی۔ 4 بجے اس کا فیصلہ کن اَجلاس ہوا اور 4 بجکر 35 منٹ پر ملک کے منتخب ادارے کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ۔
درحقیقت خاتم النبیین کا مطلب سب نبیوں سے آخری نبی اور نبیوں کے سلسلہ نبوت کے ختم کرنے والے ہیں۔ نبی کریم کے بعد کوئی شخص نیا نبی آنے والا نہیں۔ کسی قسم کا سلسلہ¿ نبوت یعنی ظلی نبوت‘ بروزی نبوت‘ تشریعی نبوت یا غیر تشریعی نبوت محال ہے۔ اِس لئے خود رب العالمین نے اپنے محبوب رحمتہ للعالمین کو خاتم النبیین یعنی سب نبیوں سے آخری فرمایا ہے۔ (الاحزاب : 40)
قرآنِ مجید کے بعد اَحادیث نبویہ سب سے اَہم اور بڑا ذریعہ ہیں۔ جن کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خود حضور نے خاتم النبیین کے کلمات کا کیا مفہوم اور معنی بیان کیا ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے: رسول اللہ نے فرمایا: ”رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی“۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت کے مطابق، رسول اللہ نے امیر المو¿منین حضرت سیّدنا علیؓ کو فرمایا:انت منی بمنزلة ھارون من موسٰی الا انہ لا نبی بعدی اے علیؓ تو میرے لئے بمنزل (حضرت) ہارونؑ ہے جیسے حضرت موسیٰ ؑ کے (نزدیک تھے) مگر اتنی بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، مجمع الزوائد، ، مشکوٰة ‘ قرطبی، المعجم الصغیر للطبرانی، المعجم الکبیر للطبرانی ، البدایہ والنہایہ۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ نے فرمایا: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمرؓ نبی ہوتے۔“ (ترمذی، مستدرک حاکم، مجمع الزوائد، کنزالعمال)