جمعرات ‘ 29؍ صفر‘ 1443ھ7 اکتوبر 2021ء
شفاف الیکشن کرا دیں پورے ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو گی۔ بلاول
سارا رولا تو ہے ہی شفاف الیکشن کروانے کا۔ وہ کروائے کون۔ اگر حکومت کوشش کرتی ہے تو اپوزیشن والے روڑے اٹکاتے ہیں۔ جب اپوزیشن والے کوشش کرتے ہیں تو حکومت ان کی چلنے نہیں دیتی۔ یوں پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ جب تک شفاف الیکشن کی تعریف پر اور انتظامات پر حکومت اور اپوزیشن متفق نہیں ہوتی یہ معاملہ حل نہیں ہو گا۔ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو گا ، بلاول کی یہ ننھی سی معصوم سی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ ویسے بھی ان کی
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
والی بات ہے۔ سیاستدانوں کی خواہشات کا کوئی شمار نہیں، حکومت انہیں چاہیے، دولت ان کی کمزوری ہے شہرت کی ان کو طلب رہتی ہے۔ کرسی سے انہیں پیار ہے۔ یہ سب کچھ وہ عوام کو بے وقوف بنا کر اپنی لچھے دار باتوں میں لگا کر حاصل کرتے ہیں۔ ا گر ہمارے یہ بڑے بڑے سیاستدان اپنے خفیہ خزانوں کے منہ کھول دیں تو پاکستان میں ڈھونڈنے سے کوئی غریب یا مفلوک الحال نہیں ملے گا۔ ویسے بھی یہ سب عوام کی تقدیر اور حالات بدلنے کے دعوے کرتے ہیں۔ اگر ایسا کر دیں تو کیا ہو گا۔ مگر وہ کبھی ایسا نہیں کرینگے۔ کیونکہ انہیں عوام سے کوئی دلچسپی نہیں وہ سب بس اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف۔ یہ سب من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس خواہش کو شفاف الیکشن کا نام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں عدالتیں ہیں۔ الیکشن کمشن ہے ، انتظامیہ ہے۔ اس کے باوجود شفاف الیکشن ممکن نہیں تو پھر یاد رکھیں یہ خواہش خواہ کسی کی ہو کبھی پوری نہیں ہو سکتی کہ شفاف الیکشن ہوئے تو ہم کامیاب ہوں گے۔
٭٭٭٭
مختلف شہروں میں ڈاکٹروں کی ہڑتال۔ اوپی ڈیز بند
ڈاکٹروں کی طرف سے جب بھی ہڑتال کا نقارہ بجتا ہے برق گرتی ہے تو بے چارے ’’مریضوں‘‘ پروالا منظر سامنے آتا ہے۔ ہسپتالوں میں کام بند ہونے سے لاکھوں مریض تڑپتے رہتے ہیں ان کے لواحقین روتے پیٹتے رہتے ہیں مگر بات بننے کی بجائے مزید بگڑ جاتی ہے۔ محکمہ صحت والوں کو چاہئے کہ وہ ایسا نظام تیار کریں جس میں ڈاکٹروں کی طرف سے ہڑتال کی صورت میں سیکنڈ لائن تیار ہو اور وہ ڈاکٹر فوری طور پر ہسپتالوں میں ڈیوٹی انجام دے کر مسیحائی کا عمل جاری رکھیں۔ اگر ڈاکٹروں کی ہڑتال برحق ہے۔ ان کے مطالبات درست ہیں تو حکومت اور محکمہ صحت والے بھی فرعونی رویہ چھوڑ کر ان کے مسائل کا حل نکالیں ۔ ان کے مطالبات پر ہمدردی سے غور کریں انہیں پورا کرنے کی سعی کریں۔ ان کے مطالبات اور حکومت کے رویے میں بے چارے مریضوں کو فٹبال نہ بنایاجائے۔ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ٹھنڈے دماغ اور رویے سے معاملات طے کرنے کی کوشش دونوں طرف سے ہو تو ہڑتال کی نوبت نہیں آتی۔ اس وقت حالات بگڑے ضرور ہیں مگر پھر بھی حل مذاکرات سے ہی نکلتا ہے۔ لاٹھی چارج آنسو گیس ، گرفتاریاں قوم کے مسیحائوں کے ساتھ بہرحال زیادتی ہے۔ ڈاکٹر بھی ذرا ہتھ ہولا رکھیں اور اپنے پیشے کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے مریضوں پر رحم کھائیں۔ ورنہ کہیں مریضوں کی بددعائیں ان کے مطالبات کو حل کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔
٭٭٭٭
وزیراعلیٰ بلوچستان مستعفی نہ ہوئے تو تحریک عدم اعتماد کا خطرہ
بحیرہ عرب میں اٹھنے والا سمندری طوفان ’’گلاب‘‘ تو سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں تباہی پھیلائے بغیر ہی خیروعافیت سے گزر گیا مگر اس وقت بلوچستان میں جو طوفان ’’جام‘‘ کی شکل میں گردش کر رہا‘ اس کا معلوم نہیں انجام کیا ہوگا۔ وزیراعلیٰ کمال اگر باکمال سیاستدان ہیں تو قدوس بزنجو بھی نوجوان اور متحرک ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ جام کی گردش اوربزنجو کی بزم آرائیوں میں کون محفل لوٹتا ہے‘ فی الحال تو سیاسی مطلع ابرآلود ہے۔ گرج چمک کے ساتھ خوب بیان بازی ہو رہی ہے۔ دونوں گروپ اپنی اپنی چال چل رہے ہیں۔ کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ گرچہ بظاہر جام کمال کی پوزیشن بہتر ہے‘ انہیں مرکزی حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے مگر خود اپنی پارٹی کے اندر جب ’’بنکاک کے شعلے‘‘ بھڑک رہے ہوں تو ’’سونے کی تلاش‘‘ بے سود ہوتی ہے۔ بات اب ’’ڈیڈلائن‘‘ تک جا پہنچی ہے۔ اگر اب بھی کچھ نہ ہوا تو تحریک عدم اعتماد کا آپشن بھی موجود ہے۔ بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے۔ وہاں کے سیاستدان اپنے معاملے خود حل کریں یہی بہتر ہوگا۔ ورنہ سارا ملبہ مرکزی سر کار پر ڈالا جاتا ہے ۔ ویسے بھی کہتے ہیں ’’جس دیئے میںجان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا‘‘ سو دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اب جلد یہ سب کچھ سامنے آجائے گا۔
٭٭٭٭
لاہور میں غیر ملکی شہری موت بانٹنے لگے ،رواں سال 7 ہزار منشیات فروش گرفتار
یہ جو 7 ہزار غیر ملکی گرفتار ہوئے ہیں۔ یہ صرف جنوری سے ستمبر تک پکڑے گئے ہیں۔ یعنی صرف 9 ماہ میں اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کا منشیات فروشی کے دھندے میں پکڑا جانا نہایت خطرناک ہے۔ یہ تو لگتا ہے لاہوریوں کو نشئی بنانے کی عالمی سازش ہے۔ لاہوری تو پہلے ہی ’’ویہلے‘‘ ہونے کی وجہ سے بدنام ہیں۔ اب انہیں دنیا و مافیا سے بیگانہ کرنے کی یہ سازش تو کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ لاہور والوں کو بڑا ترس آتا ہے۔ غیر ملکیوں پر دوسرے لوگوں پر کہ ’’خیر ہے کرنے دو کام بے چاروں کو‘‘ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ تو دھندا ہی دو نمبری کر رہے ہیں۔ کیوں کرنے دیں۔ اس وقت لاہور میں غیر ملکیوں کی بڑی تعداد غیر قانونی کاموں میں مصروف ہے۔ چوری چکاری ، لوٹ مار، منشیات فروشی کے علاوہ دوسرے غیر اخلاقی کاموں میں بھی ان کی پکڑ دھکڑ ہوتی رہتی ہے مگر یہ قابو نہیں آ رہے۔ 7 ہزار منشیات فروشی میں پولیس کے ہتھے چڑھے ہیں تو باقی صورتحال کیا ہو گی۔ اس پر سر پکڑ کر بیٹھنے کی بجائے شہر کو ایسے قانون شکن مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد سے پاک کرنے کے لیے بڑے آپریشن کی ضرورت ہے ورنہ لاہور کو بھی سہراب گوٹھ کراچی بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ غیر ملکی اگر اتنے نڈر اور دلیر ہو گئے ہیں تو مقامی اور ملکی مجرموں کو تو بااثر افراد کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ان کو نکیل کون ڈالے گا۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ اس خبر پر سخت ایکشن لے اور لاہور کو نشے کا اڈہ بننے سے بچائے۔ ورنہ ہر طرف دم مارو دم مٹ جائے غم اور دو گھونٹ مجھے بھی پلا دے کے علاوہ میرے ہوتے ہوئے ساغر کی ضرورت کیا ہے کی صدائیں شریف شہریوں کی ز ندگی اجیرن بنا دیں گی۔
ْْْ٭٭٭٭