اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) بھارت میں آج کے دن 7 اکتوبر کو 70 برس پہلے مدر ٹریسا نے کلکتہ میں اپنے فلاحی کام کی ابتدا کی تھی، ابتدا میں یہ تحریک کلکتہ میں محض 13 ارکان کیساتھ شروع کی گئی جو کچھ ہی برسوں میں ہزاروں یتیم خانوں و دیگر فلاحی اداروں میں تبدیل ہو گئی ، انسانیت کیلئے کام کرنے والی اس عظیم خاتون کو بھی آر ایس ایس اور بی جے پی نے بھرپور طریقے سے کردار کشی کا نشانہ بنایا۔ آر ایس ایس کی متعدد ریلیوں میں موہن بھاگوت سمیت دوسرے لیڈران نے بار بار کہا کہ ’’ یہ عورت (مدر ٹریسا) بھارت میں عیسائیت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے‘‘۔ بھارت میں مسلمانوں کیساتھ کیساتھ عیسائیوں کیخلاف جرائم میں بھی بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ واجپائی کے حکومت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد عیسائی اقلیت کے خلاف تشدد کی جو لہر پیدا ہوئی،اس میں سنگھ پریوار کی تنظیموں’’وشو ہندو پرشید‘‘ اور ’’بجرنگ دل‘‘ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ نومبر اور دسمبر1998 کے دوران بھارتی صوبوں گجر ات اور اڑیسہ میں درجنوں گرجا گھروں کو مسمار کر دیا گیا اور سینکڑوں عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔1998 کے اواخر میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ’’امرت سین‘‘ کو ان کی خدمات کے نتیجے میں ’’نوبل انعام‘‘ سے نوازا گیا توہندو حلقوں نے اس پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا،کیونکہ ’بی جے پی‘ اور اس کے نظریاتی حلقوں کی رائے تھی کہ موصوف اپنی تمام تر پیشہ وارنہ صلاحیتوں کو بھارت میں عیسائیت کے فروغ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔1999ء کے پہلے ہفتے کے دوران صوبہ مہاراشٹر کے شہر ’’ناسک‘‘میں انتہا پسند ہندو رہنما ’ودیا شنکر بھارتی‘کی قیادت میں دس ہزار جنونی ہندووں کے اجتماع نے باقاعدہ ایک تقریب منعقد کرکے 37 عیسائیوں کو ڈرادھمکا کر ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔بھارت میں آج بھی جگہ جگہ ’’ گھر واپسی‘‘ کے نام پر مظلوم مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
آج کے دن 1950 میں مدر ٹریسا نے فلاحی کام کی ابتدا کی تھی
Oct 07, 2020