پولیس کا فرض منصبی شہریوں کی جان مال اور عزت کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ بہت اہم اور مقدس فریضہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پولیس اس اہم فریضہ سے کماحقہ، عہدہ برا نہیں ہو سکی بلکہ اس کے برعکس اکثر اوقات شہریوں کی شکایات منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ مگر بعض پولیس اہلکار اور افسران ایسے بھی ہیں جو نہ صرف علم دوست بلکہ سماج سیوا کے کام بھی کرتے ہیں۔ حاجی حبیب الرحمن خان سے میری متعدد ملاقاتیں رہی ہیں۔ آپ انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب رہے اور بطور ایم ڈی نیشنل پولیس فاؤنڈیشن ریٹائر ہوئے۔ حاجی 26 مارچ 1928ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے اور 22 اگست 2003ء میں وفات پائی۔ تدفین نزد فردوس مارکیٹ قبرستان گلبرگ III میں ہوئی۔ پولیس افسر ہونے کے باوصف حاجی حبیب الرحمن خان،غلام احمد پرویز کے درس قرآن میں شرکت کرتے رہے اور وہیں ان سے میری ملاقاتیں رہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چند ملاقاتیں حاجی صاحب کی رہائش گاہ (گلبرگ III) میں بھی ہوئیں۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ کلاسیکی موسیقی سے بھی بہت زیادہ شغف رکھتے تھے۔ اس کو سمجھتے تھے اور گفتگو کرتے تھے۔ حاجی حبیب الرحمن نے پرویز صاحب کے ’’مفہوم القرآن‘‘ کا انگلش میں ترجمہ کیا جو طلوع اسلام ٹرسٹ نے Exposition Of The HOly Quran کے نام سے شائع کیا۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کو قرآن حکیم سے کس قدر وابستگی تھی۔ جنرل مجیب الرحمن ان کے چھوٹے بھائی ہیں جو جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں سیکرٹری اطلاعات بھی رہے۔
حاجی حبیب الرحمن خان کاکہنا تھا کہ شروع ہی سے کوشش کرتا رہا ہوں کہ کوئی سماجی بہبود کا کام کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میںانھوں نے ایک واقعہ بیان کیا۔ بھاٹی دروازہ لاہور کے اندر ایک غریب بیوہ رہتی تھی جس نے چار سال قبل پانچ سو روپے ایک سود خور پٹھان دلبر خان سے قرض لیے تھے۔ ہر ماہ سود ادا کرتی رہی لیکن چار سال بعد اصل رقم دوگنی ہو گئی۔ رقم اس نے اپنی بیٹی کی منگنی پر لی تھی۔ ہم نے دلبر خان کو مع رجسٹر ساتھ لیا۔ میں اورمیرے ساتھی سادہ لباس میں تھے۔ دلبر خان کو میرے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ ہم ٹھیک رات کے دس بجے اس بیوہ کے کوارٹر پر پہنچے، جس وقت عام طور پر دلبر خان سود کی رقم لینے جاتا تھا۔ دلبر خان نے مخصوص انداز میں دستک دی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ سے کسی نے کن اکھیوں سے دیکھ کر آہستہ سے چک اٹھائی اور ہم اندر چلے گئے۔ دلبر خان کے ساتھ تین اور افراد دیکھ کر غریب عورت کچھ گھبرا سی گئی۔ ہم ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میں نے کہا ’’بی بی آپ کسی قسم کا فکر نہ کریں، ہم آپ کے مسلمان بھائی ہیں۔ خان صاحب کو ساتھ لے کر آئے ہیں تا کہ آپ کے سود کی رقم مع اصل ان کو ابھی ادا کر دیں اور آپ کا حساب ختم ہو جائے۔ ہمارا آپ کے ساتھ کوئی لین دین نہیں، نہ ہم آپ کو قرض دے رہے ہیں‘‘ میرے ساتھی نے دلبر خان سے کہا۔ اپنا رجسٹر نکالیں اور حساب کر دیں۔ اس نے بارہ سو روپے کا حساب لگایا۔ ہم نے وہ رقم دلبر خان کو ادا کردی۔ رسید لی اور اس خاتون کا نام رجسٹر سے خارج کرایا۔ وہ عورت، اس کی بیٹی اور بیٹا حیران پریشان ہماری طرف دیکھ رہے تھے کہ کون سے انسان، کہاں سے آئے اور کیوں آئے، ہمارے گھر کا کیسے پتا چلا؟ ہم نے تسلی کرائی کہ اس بات کا کسی کو پتا نہیں چلے گا۔ ہم نے بحیثیت مسلمان فریضہ ادا کیا ہے۔
حاجی حبیب الرحمن خان نے تجویز پیش کی کہ جتنے لوگ بھی سود خور پٹھانوں کے قرض خواہ ہیں ان کی رقم حکومت اپنے ذمے لے اور آدم خوروں کو ختم کردے۔ اسی طرح بھنگ منگوں اور فقیروں کا جو روزبروز شرم ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، اس کے جامع منصوبہ بنائے اور انھیں بھی ختم کرے۔ ہم یہ کام پشاور اور لاہور میں کر کے کافی حد تک کامیابی حاصل کر چکے تھے۔
سید اظہر حسن ندیم بھی میرے دوست تھے۔ یہ آئی جی پولیس پنجاب کے عہدے تک پہنچے۔ آپ شاعر بھی تھے۔ انھوں نے پولیس کا ترانہ لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس سروس اگر صحیح انداز میں کی جائے تو عبادت ہے۔ عوام الناس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنا، مظلوموں کی دادرسی اور جرائم کی بیخ کنی کر کے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارا بنانا ایک انسان کی زندگی کی معراج ہے۔ بطور شاعر، ادیب اور پولیس افسر، پولیس کے افسران اور جوانوں میں احساس فرض کے سوتے جگاتا رہتا ہوں۔
میرے دوست شوکت ہاشمی اردو اور پنجابی کے عمدہ شاعر تھے۔ آپ کے نعتیہ مجموعے بھی شائع ہوئے۔ آپ کی ولادت کوٹ سلطان ضلع لیہ میں ہوئی جب وہ رحیم یار خان میں ایس ایس پی تھے تو 18 اگست 2001 ء میں ٹریفک حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ شوکت ہاشمی نے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ سنایا کہ میری ماں نے ایک مرتبہ حکم دیا کہ لاہور جا کر سب سے پہلے حضرت علی ہجویریؒ کی چوکھٹ پر جا کر میرا اور اپنا سلام کہنا۔ یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ سوشل میڈیا پر میں سی سی پی او (کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر) عمر شیخ کا انٹرویو سن رہا تھا۔ عمر شیخ کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے جس علاقے کے شوکت ہاشمی تھے۔ بعض بیانات کی وجہ سے عمر شیخ پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ میں نرم دل اور محبت کرنے والا شخص ہوں۔ انھوں نے پولیس کی خامیاں بھی بیان کیں اورامید ظاہر کی کہ لاہور بدل جائے گا۔ ان دنوں حضرت علی ہجویریؒ کا عرس جاری ہے۔ عمر شیخ نے بھی شوکت ہاشمی کی طرح حضرت علی ہجویریؒکی درگاہ پر حاضری کا ذکر کیا اور کہا کہ میرے والد جب لاہور آتے تو مجھے ساتھ لے کر آتے اور حضرت علی ہجویریؒ کے دربار پر ضرور جاتے۔ عمر شیخ نے کہا کہ والد صاحب کی روایت کو نبھاتے ہوئے چارج سنبھالنے کے بعد میں نے سب سے پہلے حضرت علی ہجویری ؒکی درگاہ پر حاضری دی اور دعا کی۔ یا اللہ! میں حضرت علی ہجویریؒ کے شہر کو ٹھیک کرنے آیا ہوں۔ میری مدد فرما۔
٭…٭…٭
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024