1947ء میں لاہور کے بازار کاروباری مراکز تعلیمی ادارے بند ہوئے تو آمدورفت بھی رک گئی۔ لاہور میں لوکل بسوں کے فقط تین روٹ تھے ان سب کامنبع کرشن نگر پہلا روٹ آر اے بازار تک دوسرا ریلوے سٹیشن اور تیسرا شالیمارتک ایک آنہ یا دو آنے فی کس ٹکٹ کا کرایہ سڑکوں پر دوڑتی بسیں بند ہو گئیں۔ 1947ء میں لاہور میں موٹر کاریں ، موٹر سائیکلیں بالکل ناپید تھیں۔ امیر غریب کے لئے آمدورفت کی خاطر برطانیہ سے درآمد شدہ ہرکولیس ریلے بی ایس اے کی سائیکلیں ان کے روزمرہ کے استعمال میں تھیں۔ بعض دکانداروں سے سائیکلیں کرایے پر بھی دستیاب ہو جاتیں۔ قہر آلود بدامنی میںسائیکلیں بھی سڑکوں پر اکّا دُکّا خال خال نظر آتیں۔ ان دنوں لاہور شہر میں آمدورفت کے لئے فاصلے زیادہ نہیں تھے۔ کام کاج کے لئے ضرورت مند اکثر پیدل آتے جاتے لیکن پیدل چلنا بھی خطرے سے خالی نہیںتھا۔ باامر مجبوری اگر کسی بہت ضروری کام کے لئے گھر سے نکلے تو چلتے ہوئے بار بار پیچھے مڑ کے دیکھتے کوئی چاقو بردار یا خنجر بردار تعاقب میں تو نہیں اگر منزل مقصود فاصلے پر تھا اور اسّی روپے سے درآمد شدہ سائیکل خریدنے کی استطاعت بھی نہ تھی تو ایک سستی قسم کی سواری ٹانگا ہر جگہ ہر وقت دستیاب تھا۔ ٹانگے فیروز پور روڈ جیل روڈ ، میکلوڈروڈ اور دیگر سڑکوں پر خصوصاً بھاٹی گیٹ سے ریلوے سٹیشن تک دوآنہ فی کس سواری ٹاپ ٹاپ کرتے دندناتے، گھوڑوں کی لید ایک بہت بڑا مسئلہ تھا حفظِ صحت کے لئے کارپردازانِ کارپوریشن کے پاس لید اٹھانے کا کوئی انتظام نہیںتھا۔ فسادات سے جب بسوں سائیکلوں ٹانگوں کی آمدورفت بندہوئی تو سڑکیں سنسان ہو گئیں۔
یااللہ کیا ہوا لاہور میں جِن پھر گئے یا اسرافیل نے صور پھونکدیا ویرانی ہر طرف چھا گئی۔
؎کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
تفریحِ طبع بھی ختم
ایک سیر گاہ لارنس گارڈن
اب باغِ جناح وہاں بھی اُلّو بول رہے تھے
تفریح طبع کے لئے مال روڈ پر انگریزی فلموں کے ددو سنیما ریگل اور پلازہ اور اردو اور پنجابی فلموں کابازار میکلوڈ روڈ سب خاموش، نائو نوش کے لئے مال روڈ کے ریستوران بھاٹی گیٹ کے پکوان موچی گیٹ کی برفیاں لکشمی چوک کے کھابے جہاں پُرامن دورمیں خوش ذوق خوش گپیوں سے لُطف اٹھاتے فسادات سے بند برباد ہو گئے۔
جب زندگی کا امن چین اس طرح درہم برہم ہوا تو ایک دوسرے کے خوف سے نیندیں بھی حرام ہو گئیں۔ اکثر ہندو مسلم آبادیاں آپس میں ہمسائیگی میں تھیں مثال کے طور پر بلال گنج سے متصل کرشن نگر اور سنت نگر رات کے وقت نوجوان پہرہ داری پر معمور ’’جاگتے رہنا‘‘ اور ’’تکبیر‘‘ کے نعرے لگاتے۔
اس منظر کشی پر آخر میں احمد ندیم قاسمی کی دعا
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاںجو پھول کھلے کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کے گزرنے کی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ آگے ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبزہ کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے میرے ایک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو۔
……………… (ختم شد)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024