امریکی سینیٹ کمیٹی نے بھارت سے کرفیو ختم کرنے اور حریت رہنمائوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف بھارتی سیکورٹی فورسز کی پُرامن مظاہرین کے خلاف متشددانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ گزشتہ روز کی فائرنگ سے متعدد مظاہرین زخمی ہو گئے۔ دریں اثنا امریکی سینیٹر کرس وان نے ملتان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور اُنہیں بتایا کہ بھارت وادی کی صورتحال چھپانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی ملکوں سے حقائق جاننے کی غرض سے آنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان اور پارلیمنٹوں کے ممبران کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دیتا۔
سینیٹر کرس وان ان چار امریکی سینیٹروں سے ایک ہیں جو حقائق جاننے کیلئے پہلے انڈیا گئے، جہاں انہیں جموں و کشمیر نہیں جانے دیا گیا۔ اس کے علاوہ موصوف اُن سینیٹروں میں بھی شامل ہیں جنہوں نے صدر ٹرمپ کو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی جارحیت کے خلاف خط لکھا تھا۔ ایک اور امریکی سینیٹر ایلزبتھ وارن نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کی مستقل بندش اور دیگر پابندیاں ناقابل قبول ہیں۔ کشمیریوں کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہئے۔ جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کی مدلل تقریر نے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بعض حکومتیں سرکاری سطح پر مودی حکومت سے رابطہ کر کے اُس سے کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے نمائندوں مختلف ملکوں کی پارلیمنٹ کے، زمینی حقائق جاننے کے خواہاں ارکان پر مقبوضہ کشمیر کے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں۔ بھارت کے اس طرزِ عمل اور رویے نے دُنیا پر وہ سب کچھ عیاں کر دیا ہے جسے وہ چھپانا چاہتا ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے اور مغربی ممالک کے سیاستدان پاکستان کے اس مئوقف کی تائید کر رہے ہیں کہ بھارت دُنیا کو بتائے کہ ایک نارمل ریاست میں 80 لاکھ افراد محصور کیوں رکھے گئے ہیں۔ دو ماہ سے زائد عرصے سے مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں افراد کھلے پنجرے میں بند کر کے ہر چیز ٹھیک ہے کا تاثر اور دعویٰ کس کو دکھانے کیلئے ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں خواتین پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اُس کی گواہی کسی اور نے نہیں بلکہ بھارت میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم کے وفد نے دی ہے، جس نے حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کا چھ روزہ دورہ کیا ہے۔ وفد نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ وادی پر اک سکوت کی کیفیت طاری ہے۔ آزادیٔ اظہار مکمل پابند ہے۔ کشمیری خواتین ہر وقت آبروریزی اور چھیڑ چھاڑ کے خطرے سے دوچار رہتی ہیں۔ مودی سرکار کی ڈھٹائی کی حد ہو گئی ہے کہ عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی روش پر ڈٹا ہوا ہے۔ ا س سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی اس مسئلے کو پرامن طور پر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں نہیں بلکہ وہ اس خِطے کے امن کو تباہ کرنے پرتلا ہوا ہے۔ اُسے اس امر کی بھی پروا نہیں کہ جنگ کی صورت میں پاکستان پر تو جو گزرے گی سو گزرے گی ، بھارت اور اس کی صنعت و ترقی (جس کے بڑے چرچے ہیں) ملبے کا ڈھیر بن جائے گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38