افغانستان میں گزشتہ تین روز کے دوران سکیورٹی فورسز کے حملوں میں صوبہ بخار کے ضلع بہاراک میں پچاس طالبان ہلاک اور تین درجن سے زائد زخمی ہو گئے۔ طالبان کے ٹھکانوں کو زمینی اور فضائی حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔ صوبائی حکومت کے ترجمان محمد جواد ہاجری نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع بہاراک کو طالبان سے مکمل طور پر پاک کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ دوحہ میں طالبان امریکہ معاہدہ پر دستخط ہوتے ہوتے اس وجہ سے رہ گئے کہ طالبان نے عین اس وقت دھماکہ کر دیا جب امن معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے۔ طالبان کے اس حملے میں متعدد افغان اہلکار اور ایک امریکی فوجی ہلاک ہو گیا۔ صدر ٹرمپ کو جونہی حملے کی خبر پہنچی انہوں نے مذاکرات کی بساط لپیٹ دینے کا حکم دے دیا۔ اب پھر سرکاری فوج نے طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور 50 طالبان ہلاک اور 36 سے زائد زخمی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر امریکی رویے کو مثال بناتے ہوئے طالبان مذاکرات سے انکار کر دیں تو قصوروار کون ہو گا۔ فریقین کو مذاکرات کو ثمربار بنانے کیلئے چھڑی اور گاجر کا رویہ ترک کرنا ہو گا۔ اگر افغان انتظامیہ طالبان اور امریکی سیکیورٹی فورسز نے اپنی پالیسی اور روش نہ بدلی تو افغانستان کبھی بھی امن کا منہ نہیں دیکھ سکے گا۔ طالبان ، پاکستان کے محکوم نہیں اور نہ وہ پاکستان کی رعایا ہیں، پاکستان اور طالبان کا تعلق محض مروت اور لحاظ پر مبنی ہے۔ پاکستان انہیں کب تک گھیر کر اور سمجھا بجھا کر مذاکرات پر آنے کیلئے آمادہ کرتا رہے گا۔ ایک دن آئے گا کہ وہ پاکستان کو بھی انکار کر دیں گے۔ پاکستان صدق دلی سے چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن ہو استحکام آئے اور ترقی کا عمل شروع ہو، لیکن فریقین نے جس طرح کی روش اختیار کر رکھی ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یا تو کوئی فریق بھی امن نہیں چاہتا اور یا تینوں فریق ہوشمندی سے محروم ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024