وزیراعظم پاکستان عمران خان کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کی بازگشت تا دیر سنائی دیتی رہے گی جبکہ اس کے آفٹر شاکس بھی تھمتے تھمتے ہی تھمیں گے۔۔ اقوام متحدہ میں ہونے والی کی تقریربڑی اہمیت کی حامل ہے۔ تاریخ کے ورق الٹے جائیں توایسی تقریریں بھی ہیں جن سے قوموں کی تقدیریں بدل گئیں۔ طارق بن زیاد کی وہ تقریر دیکھیں جس میں انہوں نے کشتیاں جلانے کا حکم دیا تھا۔ اسی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ سب سے آگے میرا گھوڑا ہوگا۔ سب سے پہلے مجھے زخم لگے گا ۔ اسی کی تقریر سے حوصلہ پاکر فوج نے دشمن کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔عمران خان کی تقریر اس قسم کی ثابت ہوتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو تاریخ نے کرنا ہے۔اقوام متحدہ میں ہونے والی کئی شخصیات کی تقریروں کو تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں ایک نام جنرل ضیاء الحق کا بھی ہے،ان کی تقریر سے قبل اقوام متحدہ میں پہلی بار تلاوت کلام پاک سنا ئی دی تھی۔
عمران خان کے خطاب پر توصیف و تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔مخالفین تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کا سودا کر دیا گیا ہے کشمیر کو بیچ دیا گیا ہے۔بغیر شواہد کے کسی الزام کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ کوئی مائی کا لال کشمیر کا سودا کبھی کر ہی نہیں سکتا،کشمیر کو کوئی بیچ ہی نہیں سکتا ،سودا اور بیچنے کی تو دور کی بات ہے کشمیر کے حوالے سے جوحل اقوام متحدہ نے تجویز کر دیا ہے اس سے بھی کوئی حکمران اِدھر ُادھر ہونے کی ہمت اور جرات نہیں کر سکتا۔کشمیر میں جس طرح سے بھارتی بربریت اور سفاکیت عروج پر پہنچی اور پاکستان نے جس طریقہ سے کشمیریوں کا مقدمہ لڑااور آگے بڑھایا اور دونوں ممالک کے درمیان جس طرح سے کشیدگی بھی آخری حدوں کو چھو رہی تھی اور ابھی چھو رہی ہے۔ اس تناظر میں پوری دنیا کی نظریں عمران خان کے خطاب پر تھیںکشمیر کے حوالے سے عمران خان کی تقریرنے اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور اس سے دنیا میں ارتعاش بھی پیدا ہوا ہے،سوچ بدلی ہے سوچ بدلنے سے تاریخ بدل جاتی ہے جغرافیہ بدل جاتا ہے۔
عمران خان کے خطاب نے عالمی ضمیر کیلئے تازیانے کا کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کی کارروائی مسلسل دیکھنے اور سننے والوں کا کہنا تھا کہ بھارت اور اس کی دُم چھلا چند ممالک کے نمائندوں کے سوا باقی سب ہمہ تن گوش تھے۔ عمران خان حقائق کو بے نقاب کرتے جا رہے تھے اور شرکائے اجلاس کی فارسی محاورے کے مطابق یہ کیفیت تھی کہ ’’ازدل می خیز دبردل می ریزد‘‘ یعنی سچے دل سے نکلی ہوئی بات، سیدھی سامعین کے دلوں میں جاسرائیت کرتی ہے۔ دوسری طرف بھارتی قوال اور ان کے ہم نوا بوکھلائے جا رہے تھے، انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایک نہیں دو نہیں، دسیوں دلیلوں کا مدمل جواب کیسے دے پائیں گے۔؟ اور تاریکی کو روشنی کیسے ثابت کریں گے۔!
نیویارک ٹائمزکے ایڈیٹوریل میں عمران خان کے نیویارک کے دورے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ دُوہری پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ امریکی اخبار نے اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے ، مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے دوسری صورت میں تو دوایٹمی قوتیں آمنے سامنے ہیں۔اُدھر عمران خان کے اقوام متحدہ کے میں خطاب کے حوالے سے محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے بھی عمران خان کو کشمیریوں کی بات کرنے پر کشمیریوں کا ہیرو اور امید کی کرن قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان نے جس روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا اس دن پورے کشمیر میں جشن کا سماں تھا۔ یہ بھی کہا کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کی حمایت نہ کر کے غلطی کی جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ عمران خان کے خطاب سے پوری دنیامیں کشمیر ایشو اجاگر ہوااورسوچوں میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
عمران خان کی تقریر میں کشمیر سب سے بڑا ایشو رہا۔عمران خان نے جس طرح ناموس رسالتؐ کی بات اور مغرب کے تعصب کو موضوع بحث بنایاوہ کسی عام حکمران کے بس کی بات نہیں۔ اس سے یقینا اسلام کے بارے میں گمراہ کن پراپیگنڈے کی بیخ کنی ہوئی جس پر اسلامی ذہن رکھنے والے طبقے میں اطمینان پایا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نے ماحولیات اور اپنے ایجنڈے کی راہ میں حائل عالمی رکاوٹوں کی بھی بات کی۔ پاکستان کا بھی آج خارجہ محاذ پہ سب سے بڑا ایشو کشمیر ہی ہے تاہم اندرونی طور پر بات کریں تو دیگر کچھ ایشوز بھی ہیں۔ان میں دہشت گردی کے ساتھ کرپشن کا انسداد اور کڑا احتساب بھی ہے ۔کرپشن نے ملک کی معیشت کو زبوں حال کر کے رکھ دیا۔ کرپشن کے ذریعے ملکی وسائل کو برے طریقے سے چاٹا گیا ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ ترقی پذیر ممالک سے وسائل لوٹ کر اشرافیہ اور حکمران طبقات ترقی یافتہ ممالک میں لے جاتے ہیں۔ یہی ترقی پذیر ممالک کی معیشت کی ناؤ ڈوبنے کی بڑی وجہ ہے۔اندرونی مسائل میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہی نظر آتا ہے۔ پاکستان میں اربوں کھربوں کی کرپشن اشرافیہ نے کی۔ اگر یہ پیسے پاکستان میں واپس آجائیں تو پاکستان کی تقدیر سنور سکتی ہے۔ پاکستان یقینا ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ آج نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کا بیان قوم کیلئے امید کی کرن ہے وہ کہتے ہیں اختیارات د یے جائیں تو تین ہفتے میں لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئونگا۔لوٹے وسائل واپس لانے کیلئے اختیارات یقینا ضروری ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کمٹمنٹ کی اولین شرط ہے۔ آج ایسی کمٹمنٹ نہ صرف نیب کے چیئرمین میں دکھائی دیتی ہے بلکہ وزیراعظم بھی اسی کمٹمنٹ کا اظہار کرتے رہے ہیں بلکہ تحریک انصاف حکومت کی تو پالیسی یہی ہے، اس کا تو ایجنڈا ہی کرپشن کے خاتمہ کاہے۔پاک فوج بھی بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ توڑکر رہیںگے۔ کہیں نہ کہیں آپ کو دہشتگردی میں بھی کرپشن کا کردار نظر آتا ہے۔پاکستان کو گرے سے بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کیلئے منی لانڈرنگ کی بنیادیں اکھاڑنا ہونگی کرپشن اور دہشت گردی کا واقعی کہیں نہ کہیں رشتہ اور تعلق ضرور ہے جس کا موجودہ آرمی چیف اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی کئی بار نہ صرف اشارہ کر چکے ہیں بلکہ وہ واضح الفاظ میں اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ا س حوالے سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو عملی طور پر بھی بہت کچھ کر کے دکھادیا ہے۔ ایک عزم و ارادہ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی طرف سے بھی کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے نظر آتا ہے۔ جب پاک فوج حکومت عدلیہ اور نیب جیسے ادارے کرپشن کے خاتمے اور لوٹی گئی دولت واپس لانے کیلئے پُرعزم اور ایک پیج پر ہوں تو ان کی راہ میں کون حائل ہو سکتا ہے؟۔
ہاں کچھ ضوابط اوران ممالک کے قوانین ضرور حائل ہیں جہاں پاکستان سے وسائل لوٹ کر لے جائے گئے ہیں۔اس کے ساتھ سفارتکاری میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں ۔اُن ممالک کے آپ قوانین تو تبدیل نہیں کراسکتے جن ممالک میں آپ کی لوٹی دولت جا چکی ہے البتہ ان ممالک کے ساتھ مذاکرات کرکے آپ بہتری اور بڑی رقوم واپس لا سکتے ہیں۔ گزشتہ دور میں ایک بڑے ادارے کے ہیڈ کی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ بڑے لوگوں کے سوئٹزرلینڈ کے اکاؤنٹس میں 200ارب ڈالر جمع ہیں۔ انہوں ایسا کس بنیاد پر کہا؟انہوں نے نشاندہی توکردی مگر ثبوت اور شواہد کہاں ہیں؟ اگر غلط بات کی تھی تو ان کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ پاکستان کا روشن مستقبل کرپشن کے جڑوں سے خاتمے اور ناجائز ذرائع سے بیرون ملک بھجوائے گئے اثاثوں کی واپسی سے بھی وابستہ ہے۔ایسی دولت فعال اور متحرک سفارتکاری سے واپس آسکتی ہے۔اس حوالے سے کوششیں مزید تیز ہوئی ہیں ادھر بھارت پر کرفیو ہٹانے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی دبائو میں ہر گزرتے دن کیساتھ اضافہ ہورہا ہے یہی وزیر اعظم کے خطاب کے آفٹر شاکس ہیں۔ ؎
اے خاصہ خاصانِ رسل، وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
اسرائیلی جہاز پر اگر کوئی پاکستانی موجود ہے تو اسے برادرانہ ...
Apr 15, 2024 | 14:30