پیر ‘ 7؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 7 ؍ اکتوبر 2019 ء
لاہور کا کرکٹ میلہ سری لنکا نے لوٹ لیا
پہلے ٹی 20 میں پاکستان شکست
ہار جیت کھیل کا حصہ ہے اور پھر یہ سری لنکا کا دورہ تو بہت اہم تھا۔ اس مقصد کیلئے ہم تو ان کی
اس شرط پر کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پائوں ہاروں تو پیا تیری
والی شرط بھی بسر و چشم تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ اس وقت ہمیں سری لنکا سے ہارنے سے زیادہ اس بات کی خوشی ہے کہ اس شہر میں جہاں سری لنکا کی ٹیم پر 10 برس قبل حملہ ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں ہمارے کھیل کے میدان ویران ہو گئے تھے۔ آج اسی ملک کی ٹیم کی آمد سے ایک بار پھر ہمارے کھیل کے میدان آباد ہو رہے ہیں۔ ویسے کبھی کبھی اپنوں کا دل رکھنے کیلئے بھی جیتی ہوئی بازی ہاری جاتی ہے اس لیے زیاد ہ تردد کی ضرورت نہیں۔ پاکستانی ٹیم ایک بار پھر کم بیک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ’’ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار‘‘ ابھی یہ پہلا میچ ہوا ہے ۔ ٹی 20 میں ہماری کارکردگی اتنی بھی بری نہیں ہے کہ ہم ایک میچ سے دلبرداشتہ ہو کر ہمت ہار بیٹھیں۔ ہمارے کھلاڑی باصلاحیت ہیں۔ اگلی باری میں میلہ لوٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کرکٹ کے شائقین بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ اگلے میچ میں ہم پھر کم بیک کر سکتے ہیں۔ اس لیے دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ میچ ہارنے سے زیادہ لوگوں کو سکیورٹی کے نام پر سڑکیں بند کرنے کا افسوس و غصہ ہے۔ اس کا بھی کوئی باعزت حل سوچنا چاہئے تاکہ عوام کو تکلیف نہ ہو۔
٭٭٭٭٭٭
سکھر میں نوسربازوں کا نیب اہلکار بن کر
خورشید شاہ کی فیکٹری پر چھاپہ
جعلسازی اور دو نمبری میں جو کمال ہمیں حاصل ہے وہ بہت کم کسی اور معاشرے کے لوگوں کو حاصل ہو گا۔ پولیس کی وردی پہن کر وارداتیں کرنے والوں کی داستانیں تو ہمارے ہاں عام ہیں۔ باقی نوسر بازوں کو تو چھوڑیں خود ہمارے وردی پوش بھائی بھی اس کام میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اس طرح آئے روز کہیں جعلی واپڈا اہلکار بن کر کہیں محکمہ فوڈ کا افسر بن کر کہیں انسداد منشیات ٹیم کا اہلکار بن کر کہیں انکم ٹیکس یا ایف بی آر کے اہلکار بن کر لوگوں کو لوٹنے کی وارداتیں اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ بے شک لٹنے والے وہی ہوتے ہیں جو یا تو بہت ز یادہ سادہ لوح ہوتے ہیں اور ان وارداتیوں کے ہتھے چڑھتے ہیں یا پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود دو نمبری کرتے ہیں اور اپنی دو نمبری چھپانے کیلئے ان وارداتیوں کے ہاتھوں لٹتے ہیں۔ اب جن افراد نے نیب کے اہلکار بن کر خورشید شاہ کی فیکٹری پر چھاپہ مارا وہ تو واقعی بڑے دل گردے والے ہوں گے۔ وہ شاید بھول گئے کہ وہاں جو لوگ موجود ہوں گے وہ بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر آئے ہوتے ہیں۔ وہ تو شکل دیکھ کر ہی اندازہ لگاتے ہیں کہ آنے والے مہمان ان کی اپنی برادری کے ہی ہیں یا کسی اور محکمے کے۔ سو سکھر میں بھی یہی ہوا۔ شاہ جی کے معتمد ملازمین نے فراڈیوں کو پہچان لیا۔ موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے فراڈیوں نے بھی آئو دیکھا نہ تائو بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ یوں ان کی جان بچ گئی ورنہ وہ بھی دھر لیے جاتے اور حوالات کی ہوا کھاتے۔ خدا جانے ان اناڑیوں نے اتنی بڑی واردات کی جرأت کیسے کر لی۔ اب کسی گوشے میں بیٹھ کر جان بچی سو لاکھ پائے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کا ورد کر رہے ہوں گے۔
٭٭٭٭٭٭
بلوچستان میں لازمی ہیلتھ سروسز بل منظور
میڈیکل عملہ ہڑتال نہیں کرے گا
چلو جی بہت اچھا ہوا۔ کسی نے اس طرف توجہ دی اور محکمہ صحت کے طبی عملے کو لازمی سروس کے تحت ہڑتال سے روک لیا۔ اب ظاہر ہے اس پر روایتی کام چور اور ان کے رہنما خوب اودھم مچائیں گے۔ ہڑتال اور مظاہروں کا ڈھونگ رچائیں گے مگر بہتر یہی ہے کہ بچھو کا ڈنگ اب پوری طاقت سے نکال دیا جائے۔ اس طرح دوسرے صوبوں کو بھی ہمت ملے گی اور وہ بھی محکمہ صحت کو لازمی سروس قرار دے کر وہاں سے سیاست چمکانے والے سیاسی کارندوں کو دیس نکالا مل سکے گا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ اب باقی صوبے بھی منہ دیکھتے نہ رہ جائیں۔ وہاں بھی ہسپتالوں میں سب اچھا نہیں ہے۔ ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ مل جل کر جس طرح مریضوں کو فٹبال بنا کر کھیلتا ہے وہ قابل گرفت ہے۔ خاص طور پر عام آدمی تو دعا کرتا ہے کہ خدا اسے ہسپتالوں اور تھانوں سے محفوظ رکھے کیونکہ یہاں جو کچھ اس کے ساتھ ہوتا ہے اس کے تصور سے ہی اس کو جھرجھری آ جاتی ہے۔ ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ ہے مگر اکثریت نے اسے بھی وکالت کی طرح کمائی کا پیشہ بنا لیا ہے۔ جب کسی عام سرکاری ملازم کو دوران ملازمت کہیں دوسری ملازمت کی اجازت نہیں تو یہ ڈاکٹر حضرات نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں کیوں مریضوں کو چیک کرتے ہیں اور بھاری فیس وصول کرتے ہیں۔ سب کی بات نہیں بہت سے فرشتہ صفت مسیحا بھی ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ بلوچستان میں خود وہاں کے لوگ ان اناڑی ڈاکٹروں کے ہاتھوں پریشان ہیں جو بس کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر بن گئے ہیں۔ اگر ان سب کا پنجاب کی طرح انٹری ٹیسٹ لیا جائے تو ان کی قابلیت اور ڈاکٹری دونوں کا پول کھل سکتا ہے۔ امید ہے اس فیصلے سے اب ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بھی سکون آ جائے گا اور عوام بھی شیرینی تقسیم کرتے پھریں گے۔
٭٭٭٭٭٭
اوسلو ناروے میں دراز قد فوزیہ کی
2 فٹ کے نوجوان سے شادی
اس پاکستانی جوڑے کی شادی کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر آئی تو دنیا بھر میں لوگوں نے اس پر خوبصورت جذبات کا اظہار کیا۔ کئی نے تعجب کا بھی ا ظہار کیا کہ ایک خوبصورت دراز قد حسین لڑکی نے شادی کا یہ فیصلہ کس طرح کر لیا۔ اس موقع پر تو لڑکی اور اس کے والدین تک ہرچیز کھلی آنکھوں سے پرکھتے ہیں۔ انہوں نے اس شادی کی اجازت کیسے دیدی۔ مگر خیریت رہی یورپ میں لڑکا لڑکی راضی ہو تو حقیقت میں کیا کرے گا قاضی والی بات کا دور دورہ ہے۔ وہاں جبراً شادیوںکا رواج نہیں جس طرح ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ رشتے ناتوں اور جھوٹی انائوں کا بھرم رکھنے کیلئے بیٹیوں کو رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ اب دلہن فوزیہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مجازی خدا برہان چشتی سے بہت محبت کرتی ہیں جن کو وہ پیار سے بوبو کہہ کر بلاتی ہیں اور انہوں نے اپنے بازو پر ان کا نام بھی کھدوایا ہوا ہے۔ گویا یہ محبت اور رضامندی کی شادی ہے تو کسی کو کیا پڑی کے اس پر تبصرے کرے یا پریشان ہو۔ ویسے بہت سے پاکستانیوں کی تو حالت کافی بری ہے وہ تو اپنے مقدر کو کوس رہے ہیں کہ فوزیہ کی نظر عنایت ان پر کیوں نہیں پڑی وہ ان کودولہا بنا کر ساتھ سمندر پار اوسلو لے جاتی تو وہ وہاں حقیقت میں جورو کے غلام بن کر رہنا پسند کرتے۔ مگر وہ کہتے ہیں ناں ’’کھیڈ مقدراں دے‘‘ سو یہاں بھی سارا کھیل ہے تقدیر کا۔
٭٭٭٭٭٭