آخر کار پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے تحریک انصاف کے ’’اہم ترین‘‘ رہنما جہانگیر ترین کی نظرثانی اپیل خارج کر دی اور اسے صادق امین قرار نہیں دیا گیا۔ نظرثانی کی اپیل ایک عرصہ سے فیصلہ طلب تھی اور اکثریتی رائے یہ تھی کہ جہانگیر ترین کو اپیل نظرثانی میں ریلیف ضرور ملے گا۔ شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ایسے فیصلے کی توقع کر رہا ہو گا۔
قبل ازیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اسی طرح کی اپیل میں فائدہ پہنچا راولپنڈی سے مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر شیخ رشید بھی صادق امین ٹھہرے اور مسلم لیگ ن کے خواجہ محمد آصف کو بھی نظرثانی اپیل میں ریلیف پہنچا اس قسم کے اہم کیسوں میں میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ میاں نواز شریف کے پرستاروں نے بھی اپنے قائد کی نااہلی کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور نظرثانی اپیل میں بھی وہ صادق و امین نہ بن پائے کیونکہ پانامہ کیس میں کہیں اقامہ نہیں تھا تو ایسے کیس میں سزایافتہ ٹھہرے جس کا سارے فسانے میں ذکر ہی نہ تھا۔ جہانگیر ترین کی نظرثانی اپیل میں وہ خود بڑے پرامید تھے لیکن تمام تر توقعات کے برعکس عدالت کے گہرے سناٹے میں ججوں کی آواز بلند ہوئی تو جہانگیر کے وکیل کی آواز بھی کمرہ عدالت کے سناٹے کو چیرنے لگی تو عدالت نے اس رویے پر سرزنش کی اور کہا کہ اپنی آواز دھیمی رکھیں یہ عدالت ہے اس طرح جہانگیر ترین کیس ہار گئے۔ انہوں نے اس طرح سوچا بھی نہ ہو گا لیکن ایسا ہو گیا۔ عدالتوں کے فیصلے تسلیم کرنے پڑتے ہیں وہ درست ہوں یا نہ ہوں کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عدالتی فیصلے سے تحریک انصاف اور جہانگیر ترین کو شدید نقصان پہنچا ہے جہانگیر ترین کی اپنی جماعت کیلئے بیش بہا قربانیاں ہیں۔ ملک میں اگر مفاہمت کی سیاست کی بات ہو تو سابق صدر آصف علی زرداری کے بعد جہانگیر ترین کا نام آتا ہے جنہوں نے لگتا ہے کہ ’’کونسلنگ‘‘ میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ عمران خان ہر لمحہ ان کے تجربے‘ مشورے اور تجاویز سے فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف آج برسراقتدار ہے تو اس میں بھی دامے‘ درمے‘ قدمے‘ سخنے جہانگیر ترین کا حصہ ہے۔ آزاد امیدواروں کو دھارے میں لانے کی بات ہو یا صدر مملکت کا انتخاب ہو جہانگیر ترین کو ہی ان کی ’’مدد‘‘ کیلئے لندن سے بلوایا گیا۔ عدالت کا فیصلہ اپنی جگہ مگر جہانگیر ترین کی سیاسی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں جہانگیر ترین کی قصیدہ خوانی مقصود ہرگز نہیں بلکہ میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کی ہمیشہ کیلئے نااہلی جس پر دونوں شخصیات حیران و پریشان بھی ہیں اور اپنی نااہلی کو اہل اور صادق و امین بنانے کا نسخہ بھی انہیں کے پاس ہے شاید یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے بعد ان کی سیاست میںنااہلی کے پیش نظر مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف نے پاکستانی سیاست میں ایک نئے عمرانی معاہدے کی تجویز دی ہے۔ خود نوازشریف نے بھی ایسے ہی ایک معاہدے کی بات کی تھی لیکن اس وقت کی سیاسی تلخیوں میں کسی نے نوٹس نہ لیا۔
شہباز شریف کے عمرانی معاہدے کے مطالبے یا تجویز کہہ لیں اس پر پاکستان پیپلز پارٹی سیخ پا ہو گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے نہ صرف ایسے عمرانی معاہدے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے بلکہ ان کی درستگی کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کو عمرانی معاہدوں کو تو علم ہی نہیں ہے اور ان کی باتوں کو غیرذمہ دارانہ قراردیا اور مشورہ بھی دے ڈالا ہے کہ وہ ایسی غیر ذمہ دارانہ باتوں سے پرہیز کریں ۔
اس عمرانی معاہدے کے بارے میں اپوزیشن لیڈر کو سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے عمرانی معاہدے ریاست اور عوام کے درمیان ہوتا ہے۔ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے اس مشورہ پر حیران ہیں کہ سیاسی جماعتیں ہی تو عوامی طاقت ہوتی ہیں اور ریاست کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے یہ تو بات کرنی ہوتی ہے اور اسی تناظر میں شہباز شریف کی تجویز سیاسی جماعتوں کے نزدیک درست ہے جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کے موقع پر تمام آئینی ماہرین کا اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ نظرثانی اپیل کے بعد سیاسی میدان میں اہل ہونے صادق اور امین ہونے کا اب اور کوئی راستہ نہیں ہے اس بند گلی سے نکلنے کا ایک ہی آئینی اور قانونی راستہ ہے وہ صرف پارلیمنٹ ہے اگر اس صورت حال سے باہر نکلنا ہے تو جی ہاں! ایک معاہدہ اور وہ عمرانی معاہدہ جس کی طرف مسلم لیگی سربراہ نے اشارہ کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے تمام نااہل سیاستدان اہل ہو سکتے ہیں۔ سیاست میں دشمنیاں تو نہیںہوتی۔ ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے پڑتے ہیں۔ تحریک انصاف کو جہانگیر ترین کی حمایت کی از حد ضرورت ہے وہ پارٹی کا اثاثہ ہیں پارٹی کے وفادار اور عمران خان کے بھی پرانے ساتھی اور قابل اعتماد دوست سمجھے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے ذریعے تاحیات نااہلی سے کسی بھی مقررہ مدت تک کیلئے سزا مقرر ہو سکتی ہے وگرنہ دونوں اہم شخصیات سیاست سے محروم رہیں گی اور اپنے سیاسی دوستوں کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کو کہیں گے ضرور!
آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صباء ہو جائیگی
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024