یہ حقیقت ہے کہ پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدہ کو یقینی بنانے کیلئے ترقی پذیر اور غریب ملکو ںنے جوفضا میں گرین ہائوسزگیسوں کے اخراج کے کم سے کم ذمہ دار ہیں اپنے تحفظات کے باوجود ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ بھرپورکردارادا کیا ہے پیرس میں معاہدے کے مطابق رواں صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سے کم اور ممکنہ حد تک 1.5 ڈگری تک محدود کیا جائے گا پیرس معاہدے سے قبل نیویارک میں 48 کم ترقی یافتہ ملکوں کے اتحاد کا کہنا تھا کہ وہ معاہدے کا خیر مقدم تو کرتے ہیں لیکن وہ اس امر سے بھی واقف ہیں کہ امریکہ چین اور یورپی یونین کی صنعتی ترقی کے نتیجے میں آنے والے 50 برسوں میں عالمی درجہ حرارت میں 3 ڈگری کا اضافہ ہوجائے گا جس کے باعث متعدد غریب ملک کسی بھی طرح کی زندگی گزارنے کیلئے ناقابل برداشت ہوجائیں گے جب کہ جزائر سے تعلق رکھنے والے ملکوں کا کہنا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں 1.5 درجہ کا اضافہ ہوتا ہے توسمندر میں اضافہ کی وجہ سے ڈوب جائیں گے پیرس معاہدے کے نکات میں شامل تھا کہ طے کردہ اہداف کا اطلاق2020 سے شروع ہوگا پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے ایک سو ارب ڈالر کی امداد بھی2020 سے فراہم کی جائے گی اور اس میں وقت کے ساتھ اضافہ بھی کیا جائے گا اس پس منظر میں پیرس معاہدے پر عمل درآمد کیلئے 2018-19 بہت اہم ہے رواں سال عالمی ماحولیاتی کانفرنس 2 سے14 دسمبر تک پولینڈ میں منعقدہ ہورہی ہے پیرس معاہدے پر عمل درآمد کیلئے U.N کی زیر نگرانی تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہواتھا اس میں196 ممالک نے شرکت کی اس کا مقصد عالمی سطح پر کاربن کی بڑھتی مقدار اور اس کی وجہ سے اوزون میں پڑنے والے شگاف تھے اوزون کی تہہ سورج کی خطرناک شعاعوں کو زمین پر آنے سے روکتی ہے مطلب اوزون سورج کی روشنی کو Filter کرتی ہے تھائی لینڈ کانفرنس امیر اور طاقت ور ملکوں کی ہٹ دھرمی اور بے حسی سے بنکاک کا نفرنس ناکام ہوگئی امریکہ پیرس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کرچکا ہے باوجود اس کے پھر بھی ہر کانفرنس میں شامل بھی ہورہا ہے جب کہ بنکاک کانفرنس کی ناکامی میں امریکہ کا کردار بھی مشکوک ہے پیرس معاہدے کے مطابق امیر ملکوں نے غریب ملکوں کو قسط وار اربوں ڈالر کا وعدہ کیا تھا جو اب تک نہ مل سکے بنکاک کانفرنس کی ناکامی کے بعد 90 سے ز ائد ملکوں میں احتجاج ہوئے جن میں سب سے بڑا مظاہرہ فرانس میں ہوا جس میں شرکا کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ پیرس معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے۔
اگر 2 دسمبر سے پولینڈ میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس بھی رزلٹ پرنہیں پہنچتی ہے تو پیرس معاہدے پر کئی سوال کھڑے ہوجائیں گے اس معاہدے کو نامنظور کرنے میں بنیادی رکاوٹ وہ سرمایہ اور ٹیکنالوجی ہے جس کا وعدہ امیر ملکوں نے غریب ملکوں کو فراہم کرنے کا کیا تھا گلوبل وارمنگ کے مرکزی ذمہ دار ملکوں کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار پاکستان بھی بہت زیادہ ہے اور آنے والے سالوں میں مزید متاثرہوسکتا ہے بلکہ ہوگا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سردیوں کا موسم سمٹتا جارہا ہے۔
اب اگر دسمبر جنوری میں بھی لگاتار دھوپ نکلے تو گرمی کا احساس ہوتا ہے دوسرا سردیوں میں سموگ کی آفت آجاتی ہے جو بہت خطرناک ہے پاکستان میں فضائی آلودگی کا ذمہ دار بھارت بھی ہے کیونکہ بھارت کے شہروں کی فضا بہت زیادہ آلودہ ہے نئی دہلی دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے جب ہوا کا رخ پاکستان کی طرف ہوتاہے تو سموگ میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
عمران خان نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر کچھ اقدامات اٹھائے ہیں جس کو دیکھ کر بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے اقدام کوئی لیڈرہی اٹھاسکتا ہے کوئی سیاست دان ایسا نہیں کرسکتا ،عمران خان کا طرز سیاست دیکھ کر مجھے نیلسن منڈیلہ کی تاریخی بات یاد آگئی جس میں Nelson نے سیاست دان اور لیڈر کا فرق بتایا تھاکہ سیاست دان کی نظر اگلے الیکشن پر جب کہ لیڈر کی نظر آنے والی نسلوں اور ان کے مستقبل پر ہوتی ہے عمران خان نے ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کیلئے باقی ترقی پذیر ملکوں بشمول بھارت کی طرح دوسرے ملکوں کے فنڈ اور ٹیکنالوجی پر انحصار کی بجائے اپنے زور بازو اپنے دم پر پورے ملک میں 10 ارب درخت لگانے کی مہم کا آغاز کردیا ہے اس سے پہلے عمران خان KPK میں ایک ارب20 کروڑ درخت لگواچکے ہیں جس کی وجہ سے KPK کی آب وہوا ماضی کی نسبت صاف ہے اس کے علاوہ عمران نے سردیوں کے ایک سے دوماہ بھٹہ خشت بند کرانے کا حکم دیا ہے اور فصلوں کی باقیات جلانے پر بھی پابندی عائد کردی ہے اس لئے عالمی ماہرین اس اقدامات کو دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کی آب وہوا دس ارب درختوں کی وجہ سے کچھ صاف ہوجائے گی اور گلوبل وارمنگ کے اثرات بھی اس پر کم ہوں گے عمران خان کے دانشمندانہ فیصلے کی وجہ سے ہم محفوظ ہیں۔
2013ء میں جب KPK میں تحریک انصاف بر سر اقتدار آئی اس وقت پشاور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمارتھا لیکن اب پشاور جائیں تو ہرطرف سبزہ ہی سبزہ سڑکوں کی سائیڈز پر درخت پھول کیاریاں ایسا گمان ہوتا ہے کہ پاکستان نہیں یورپ کے کسی شہر میں ہیں KPK میں جو درخت لگائے گئے اس کی تعریف تین بین الاقوامی ادارے بھی کرچکے ہیں درختوں کے معاملے میں ماضی میں جتنی بھی حکومتیں آئیں کسی نے زرہ بھر بھی توجہ نہیں کی حالانکہ درخت لگانے کاکام اتنا مہنگا نہیں ہے عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی ملک کے 33 فیصد حصہ پر جنگلات کا ہونا لازم ہے جبکہ پاکستان میں صرف0.6 فیصد حصہ پر جنگلات ہیں درخت لگانے اوراپنے گھر پاکستان کو صاف کرنے کے اس کام میں ہم سب کو عمران خان کا ساتھ دینا ہے ہر شخص کم از کم دو درخت ضرور لگائے اور باقی ترقی پذیر ملکوں کو بھی بچائے درخت لگانے کی پالیسی کو فوری طورپر ساری دنیا کو اپنا نا ہوگا اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔
اسرائیلی جہاز پر اگر کوئی پاکستانی موجود ہے تو اسے برادرانہ ...
Apr 15, 2024 | 14:30