صدیوں پرانا قصبہ ٹبہ سلطان پور آج بھی گوناں گوں مسائل کا شکار ہے۔ شہر کی آبادی تواتر سے بڑھ رہی ہے۔ مگر آبادی کی مناسبت سے سہولیات نہ ہیں۔ ٹبہ سلطان پور کو سب تحصیل کا درجہ حاصل ہے۔ اس سے بعد میں معرض وجود میں آنے والے چھوٹے شہر تحصیل اور ضلع کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ اس قصبہ کو 1979 ء میں ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا تھا۔ آج تک نکاسی آب اور فراہمی آب کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ سیوریج کے گندے پانی کی نکاسی کا بہتر انتظام نہ ہے اور نہ ہی گلیوں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کوئی معقول بندوبست ہے۔ لوگ تعفن سے بیزار ہیں۔ صاف پانی نہ ہونے سے لوگ رکشہ والوں سے ناقص پانی خرید نے پر مجبور ہیں۔ رکشہ ڈرائیور چک 261 / ڈبلیو بی نہر والی پل سے پانی بھر کر سارے شہر میں فروخت کر رہے ہیں۔ ان کا پانی بھی غیر تصدیق شدہ ہے اور بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ شہر میں نہ میٹھے پانی کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی گندے پانی کی نکاسی کا کوئی معقول انتظام ہے۔ علاقہ بھر میں جگہ جگہ غیر منظور شدہ کالونیاں بنی ہوئی ہیں جہاں سادہ لوح غریب لوگوں کو سستے پلاٹوں اور جملہ سہولیات فراہم کرنے کا جھانسہ دے کر لوٹا جا رہا ہے۔ یہ کالونیاں جو کہ 3 ایکڑ سے زائد نہ ہیں محض غریبوں کو لوٹنے کیلئے بنائی جا رہی ہیں۔ انہیں کوئی چیک کرنے والا نہ ہے۔ مختلف ٹاؤنوں اور کالونی کے مالکان راتوں رات امیر بن رہے ہیں مگر غریب لوگ پریشان ہیں۔
بے ہنگم تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں سکڑ کر رہ گئی ہیں۔ ہسپتال کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ کھل کی بوریاں‘ آٹا‘ برائلر‘ چائے اور سگریٹ والوں ‘ سبزی اور پھل والوں نے اپنے اپنے کھوکھے سجا رکھے ہیں۔ پھل فروشوں اور گنے کا جوس نکالنے والوں نے بھی روڈ کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ ریڑھیاں کھڑی کر رکھی ہیں۔ گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری سکول کے ساتھ مین گیٹ تک چاول چھولے بیچنے والوں اور برگر ‘ کباب فروخت کرنے والوں نے قبضہ جما رکھا ہے جس وجہ سے جب ہائر سیکنڈری سکول سے چھٹی ہوتی ہے تو ٹریفک جام ہو کر رہ جاتا ہے اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ ایمبولینسوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ قینچی چوک سے آگے جگہ جگہ دکانداروں نے دکانوں میں موجود سامان سے زائد سامان روڈ پر رکھا ہوا ہے۔ کباڑیوں نے روڈ پر قبضہ جما رکھا ہے۔ 60 فٹ کشادہ روڈ اب بمشکل 20 فٹ باقی ہے۔ واپڈا آفس ٹبہ سلطان پور کے اہلکاروں نے صارفین کو لوٹنے کا پکا ارادہ کر رکھا ہے۔ نئے کنکشن کے خواہشمند کو جگہ جگہ مصیبتوں کا سامنا ہے۔ واپڈا اہلکاروں کی جیب گرم نہ کرنے والوں کو پرائیویٹ کمپیوٹر دکانوں پر درخواستیں آن لائن کرانے کا کہا جاتا ہے۔ جبکہ نذرانہ دینے والوں کو آفس میں ہی ڈیل کر لیا جاتا ہے۔بل ڈسٹری بیوٹرز مخصوص دکانوں پر بل پھینک کر رفوچکر ہو جاتے ہیں لوگ انٹرنیٹ سے پرنٹ نکلوا کر بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں کوئی تفریحی پارک نہ ہے ۔ گراں فروشی عروج پر ہے۔ کاشتکاروں کو رجسٹری کی سہولت نہ ہے اہلیان علاقہ نے ارباب اختیار سے علاقہ کے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024