
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے دہلی میں خطرناک ایئر ڈیفنس سسٹم ایس 400 کی خریداری سمیت دفاعی‘ تجارتی اور خلائی تحقیق سے متعلق پانچ بلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان 8 دفاعی‘ جوہری توانائی‘ خلائی تحقیق‘ تجارت اور ریلوے بارے معاہدے بھی طے پا گئے۔ رواں برس ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں سے متعلق معاملات پر بھی اتفاق کر لیا گیا۔
بھارت کے آس پاس اور اڑوس پڑوس کوئی ملک ایسا نہیں جس سے بھارت کو جارحیت کا خطرہ ہو۔ لہٰذا امریکہ اور فرانس کے بعد اب روس سے اربوں ڈالر کے جدید ترین ہتھیاروں کی خرید جنگی جنون نہیں تو اور کیا ہے۔ بھارت کے دو ہمسایوں پاکستان اور چین نے کبھی ڈرایا دھمکایا نہیں‘ البتہ بھارت نے پاکستان کے خلاف تین بار جارحیت کا ارتکاب کیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھارتی جارحیت ہی کا نتیجہ تھا۔ بھارت کی جنگی ذہنیت کا تو کوئی علاج نہیں‘ البتہ افسوس ان ملکوں کی تاجرانہ ذہنیت پر ہے جو بھارت کے ہاتھ دھڑا دھڑ اسلحہ بیچ رہے ہیں اور اس سے یہ بھی عہد نہیں لیا جاتا کہ اس اسلحے کو جارحیت کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کو تو چھوڑیے‘ روس کے چین کے ساتھ بھارت سے بھی زیادہ قریبی تعلقات ہیں‘ لیکن اس نے بھارت کو جدید اور خطرناک ترین جنگی مشینری فروخت کرتے ہوئے اتنی بھی یقین دہانی حاصل نہیںکی کہ ان ہتھیاروںکو چین کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ گزشتہ روز جب صدر پیوٹن بھارت پہنچے تو وزیراعظم مودی نے مروجہ سفارتی آداب کو نظرانداز کرتے ہوئے مہمان کو بڑی تگڑی جپھی ڈالی۔ ایسی جپھی عموماً بچپن کے دوستوں یا بیٹی بیٹے کے سسرال والوں سے ڈالی جاتی ہے۔ جپھی کے انداز پر سفارتکاروں کا ماتھا ٹھنکا کہ اس دورے کے دوران کچھ غیرمعمولی ہونے والا ہے۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ روس کے ان فیصلوںسے پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ بھارت نے جب بھی پاکستان پر حملہ کیا‘ اس میں روسی یا امریکی ہتھیار ہی استعمال ہوئے۔ ارباب بست و کشاد دیکھ رہے ہیں کہ بھارت کس طرح اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے۔ یہ ہتھیار سکم اور بھوٹان کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف استعمال ہونگے۔ لہٰذا ہمیں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو اس حد تک لے جانا ہوگا کہ جارح کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔