پارلیمنٹ مکمل پاکستانیوں پر ہی مشتمل ہونی چاہیے
چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین ابراہیم نے کہا ہے کہ ہم کواس وقت پارلیمنٹ آدھا نمائندہ نہیں خالصتاً پاکستانی چاہیے۔ دوہری شہریت رکھنے اور حلف نامہ جمع نہ کرانے والے منتخب نمائندوں کیخلاف کارروائی سے متعلق حکمت عملی کا فیصلہ 9 اکتوبر کو الیکشن کمیشن کے اجلاس میں کیا جائیگا‘ جو حلف نامے پر دستخط نہیں کرینگے‘ ان کیخلاف ایکشن لینا پڑیگا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات کو شفاف اور غیرجانبدار بنانے میں ایوان صدر سمیت کہیں سے کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ ہی کہیں سے کوئی دباﺅ آیا‘ ایسا کوئی دباﺅ قبول بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میرا ایک نکاتی ایجنڈا ملک میں شفاف انتخابات کروانا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز لاہور کے دورہ کے موقع پر صوبائی الیکشن کمیشن میں آئندہ انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے جائزہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ بعض ارکان کی دوہری شہریت کا معاملہ الجھ گیا ہے کیونکہ پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا لیکن ہر صورت ہمیں فیصلہ تو کرنا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی دوہری شہریت رکھنے والے ارکان کیخلاف الیکشن کمیشن کو کارروائی کیلئے کہا جو ہم نے کی‘ عدالتی حکم ماننا ضروری ہے۔
گزشتہ 21 ستمبر 2012ءسپریم کورٹ نے گیارہ پارلیمنٹیرینز کو دوہری شہریت کا حامل ہونے کی بناءپر نااہل قرار دیا‘ وزیر داخلہ رحمان ملک کو سینٹ کی گزشتہ رکنیت سے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ انکے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ عدالت نے نااہل ارکان سے وصول کردہ مراعات واپس لینے اور ان کےخلاف تعزیرات پاکستان کے تحت قانونی کارروائی کرنے کا حکم بھی دیا۔ سپریم کورٹ نے دوہری شہریت سے متعلق حلف نامہ جمع کرانے کا حکم دیا جس پر عملدرآمد کیلئے الیکشن کمیشن نے متعلقہ سیکرٹیریٹس کو آگاہ کیا جس پر 2اکتوبر کو قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ نے الیکشن کمیشن کو جواب دیا کہ قواعد کے مطابق ارکان سے دوہری شہریت کا نیا حلف نامہ لینا اسکی ذمہ داری نہیں۔ یہ حلف نامہ ارکان سے انفرادی طور پر لے لیا جائے۔ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹیرینز کو نااہل قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی تو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا کہ وہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔ تاہم چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہر ادارہ عملدرآمد کا پابند ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے عدلیہ کے بہت سے فیصلوں پر شدید ردعمل کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب دیدار شاہ کی تقرری کو غیرقانونی قرار دیا تو اس پر سندھ میں ہڑتال کی گئی۔ اس دوران جلاﺅ گھیراﺅ ہوا اور متعدد افراد بھی مارے گئے۔ جو فیصلہ اپنی منشاءو مرضی کے مطابق نہ ہو‘ عموماً اس پر عملدرآمد سے گریز کا رویہ سامنے آتاہے۔ دوہری شہریت کے حوالے سے سپریم کورٹ کا بے لاگ فیصلہ ہے‘ یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے آئین اور قانون کے عین مطابق دیا۔ آئین کی دفعہ 63(1)C میں بالکل واضح لکھ دیا گیا ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والا شخص پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا‘ اسکے باوجود جن لوگوں نے الیکشن لڑا‘ انہوں نے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی‘ جو سپریم کورٹ کی نظر میں آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے انکی رکنیت معطل کر دی گئی اور الیکشن کمیشن کے ذریعے تمام ارکان سے دوہری شہریت کے حوالے سے حلف نامے لینے کا حکم جاری کیا گیا۔ اس عمل کو آسان بنانے کے بجائے قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ الیکشن کمیشن کو کوئی اور راستہ دکھا رہا ہے جبکہ دوہری شہریت کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تنقید کرنے میں حکومتی حلقے پیش پیش ہیں۔اٹارنی جنرل نے خط لکھ کر الیکشن کمیشن کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے امریکہ کے دورے کے دوران 31 ستمبر کو پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یہ پختہ عزم ہے کہ دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو انتخابات اور شہری امور میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کسی غیرمنتخب فرد کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پاکستانی عوام کی طرف سے منتخب کردہ کسی رکن کی حب الوطنی کے بارے میں سوال اٹھائے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تعلیم مکمل کرلی۔ وہ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں‘ ان کو آئین کی شدبدھ ہونی چاہیے اور پارٹی کے بڑے انہیں یہ بھی سمجھائیں کہ ایسی باتیں اول تو ان کو کرنی ہی نہیں چاہئیں‘ اگر کچھ کہنا ہے تو اپنے ملک میں کہیں‘ امریکہ میں بیٹھ کر ایسی لایعنی اور بے معنی سخن طرازی سے جہاں پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے‘ وہیں خود انکی اپنی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔
بیرون ممالک مقیم پاکستانی وطن عزیز کا عظیم سرمایہ ہیں‘ ان کو ووٹ کا حق حاصل ہے‘ انکی خدمات سے کوئی انکاری نہیں۔ اگر کسی کی دوہری شہریت ہے تو اس سے پاکستان کی سلامتی اور سالمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بعض ممالک تو کسی صورت بھی غیرملکیوں کو شہریت نہیں دیتے۔ ان میں خلیجی ریاستیں اور عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ کئی ممالک دوسرے ملک کی شہریت لینے پر اپنے ملک کی شہریت منسوخ کر دیتے ہیں۔ ایک غیرتمند پاکستانی کے طور پر جب کوئی دوہری شہریت کیلئے Declaration of alligiance دیتا ہے تو وہ خود کے مکمل پاکستانی شہری ہونے کا حق کھو دیتا ہے۔
پاکستانیوں کو دوہری شہریت دینے والوں میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست ہیں‘ امریکی شہریت کیلئے جمع کرائے جانیوالے حلف میں کہا جاتا ہے کہ میں امریکی ریاست‘ آئین اور قانون کا ہمیشہ وفادار رہوں گا اور یہ کہ قانون کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ کے دفاع اور تحفظ کیلئے ہتھیار اٹھاﺅں گا۔ برطانوی شہریت کیلئے برطانوی قوانین کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان سے وفاداری کی قسم کھائی جاتی ہے۔ الیکشن لڑنے والے ہی وزیراعظم‘ وزیر خارجہ‘ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ جیسے حساس اور اہم عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں‘ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پاکستان کا مقدر کیوں دیدیا جائے جو دوسرے ممالک کے ساتھ وفاداری کی قسم کھا چکے ہیں؟ ان کو پاکستان سے محبت ہے تو دوہری شہریت ترک کر دیں۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کا پارلیمنٹ کو خالصتاً پاکستانی پارلیمنٹ بنانے کا عزم قابل تحسین ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو جعلی ڈگری ہولڈرز سے بھی پاک کرنا چاہتے ہیںاور منصفانہ الیکشن کرانے کیلئے کمٹڈ ہیں۔ حکمران‘ سیاست دان اور ہر طبقہ فکر کے لوگ فخرالدین جی ابراہیم کے اس عزم کو عملی شکل دینے کیلئے اپنا اپنا بہترین کردار ادا کریں۔ آئیے سب پاکستانی مل کر پارلیمنٹ کو خالصتاً پاکستانی پارلیمنٹ بنانے کیلئے چیف الیکشن کمشنر کے ہاتھ مضبوط کریں۔