پروفیسر مرزا محمد منور۔۔۔ یادوں کا تعاقب
مرزا صاحب سے چند اور معاملات میں بھی مجھے شکایت رہی۔ وہ استاد تو بہت اچھے تھے مگر جب انتظامی عہدوں پر فائز ہوئے تو اداروں کے سارے معاملات ماتحتوں پر چھوڑ کر اپنی انتظامی ذمہ داریوں سے لاتعلق ہو گئے۔ چنانچہ اداروں کا نظم و ضبط بگڑ گیا۔ خصوصاً ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی کی حیثیت سے ان کے ایک دو ماتحت ہی تمام معاملات چلاتے تھے۔
مرزا صاحب دفتر میں آتے۔ ان کے مداحین جمع ہو جاتے۔ اب مرزا صاحب کو کچھ لوگوں نے مرشد کے مقام پر فائز کر دیا تھا۔ وہ لوگ آ کر با ادب جھک جاتے اور ان کے ہاتھ چومتے۔ پھر ان کے پسندیدہ موضوعات پر گفتگو شروع ہو جاتی۔ بہت اچھی کراکری میں چائے آ جاتی۔ جب مرزا صاحب تھک جاتے تو گھر واپسی کے لیے گاڑی طلب کرتے۔ ڈرائیور کے آتے آتے ان میں سے ایک ماتحت کچھ کاغذ لے کر آ جاتا اور مرزا صاحب اس پر اعتماد کی وجہ سے کاغذات پر دستخط کر دیتے۔ یہ دفتر کا معمول تھا۔
پھر وہ دن بھی آیا کہ سال کے اختتام سے پہلے بجٹ ختم ہو گیا اور تنخواہوں کے پیسے بھی نہ رہے۔ مرزا صاحب خود مالی معاملات میں بے حد دیانت دار تھے لیکن اب اس صورت حال کا تدارک کیسے کیا جائے؟ انھوں نے اپنے ایک سرمایہ دار دوست سے قرض لے کر عملے کو تنخواہیں ادا کیں۔ آئندہ کے لیے حکومت سے کہا کہ اکیڈمی کی گرانٹ دوگنی کر دی جائے۔ یہ تجویز قبول نہ ہوئی۔ مرزا صاحب نے بطورِ احتجاج استعفا دے دیا جو فیصلے کے لیے ’بورڈ آف گورنرز‘ کے اجلاس میں پیش ہوا۔ میں بورڈ آف گورنرز کا ممبر تھا۔ جب ان کا استعفا پیش کیا گیا تو ایک ممبر نے کہا کہ مرزا صاحب کی بہت خدمات ہیں اور استعفا بطورِ احتجاج دیا گیا ہے اس لیے نامنظور کر دیا جائے لیکن میں نے کہا کہ مالی اور انتظامی معاملات اتنے خراب ہیں کہ استعفا فوراً منظور کیا جائے چنانچہ ممبروں نے میری رائے کی حمایت کی اور استعفا منظور کر لیا گیا۔ مرزا صاحب تین بار اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر رہے مگر سچ تو یہ ہے کہ اکیڈمی نے اقبالیات کی تحقیق و تنقید کے سلسلے میں کوئی اہم کام نہ کیا۔
مرزا منور انتہائی باصلاحیت اور ذہین شخص تھے۔ میری خواہش تھی کہ وہ تحریک پاکستان کے اہم پہلوؤں پر کوئی تحقیقی کتاب لکھیں۔ میں نے اس خواہش کا ان سے اظہار بھی کیا مگر تحقیق کے لیے پیروں میں زنجیر ڈال کر بیٹھنا پڑتا ہے اور مجلسی لوگوں کے لیے یہ بہت مشکل کام ہے اس لیے وہ اس طرف نہیں آتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ میں تقریروں کے ذریعے جو کچھ کر رہا ہوں یہی قوم کی بہت بڑی خدمت ہے۔ وہ لاجواب خطیب تھے اور خطیب کو جو پذیرائی حاصل ہوتی ہے وہ اس پر نشے کی سی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔
بقولِ حالی:…؎
ہے صراحی میں وہی لذت کہ جو
چڑھ کے منبر پر مزہ پاتے ہیں آپ
اقبالیات کے مختلف پہلوؤں پر ان کی عمیق نظر تھی۔ اس موضوع پر ان کی متعدد کتابیں بھی چھپی ہیں مگر میں جب ان کتابوں کو پڑھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ میں ان کی تقریریں سن رہا ہوں۔ دراصل مرزا صاحب مضمون لکھتے وقت تحریر اور تقریر میں فرق کو نظر انداز کر دیتے تھے۔
اس کالم کی آخری قسط کو اگر میں یہیں ختم کر دوں تو مجموعی تأثر قدرے منفی بن جائے گا۔ مرزا صاحب کی خوبیاں ان کی کوتاہیوں پر بہرحال غالب تھیں۔ ان کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ ان کے مالی ذرائع محدود تھے لیکن وہ بہت کھلے دل کے تھے۔ مہمان نواز تھے۔ کئی مفلوک الحال لوگوں کو ماہ بہ ماہ خاموشی سے کچھ رقم ادا کر دیتے تھے۔ اگر کسی کو زیادہ مالی امداد کی ضرورت ہوتی تو اپنے کسی خوشحال دوست سے رقم لے کر دے دیتے تھے۔ بالعموم لوگوں کے بہت کام آتے تھے۔ اس سلسلے میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے تھے۔ کوئی جاننے والا سفارش کرانے کے لیے آ جاتا تو اس کی پروا نہیں کرتے تھے کہ وہ نظریاتی طور پر ان کا حامی ہے یا مخالف۔ کام کرانے کے لیے مستعد ہو جاتے تھے۔
بہت سے بڑے لوگوں سے ان کے تعلقات تھے۔ میں مرزا صاحب کے توسط سے بہت سے اہم لوگوں سے ملا۔ ’نوائے وقت‘ کے بانی حمید نظامی اور ادارے کو مستحکم کرنے والے مجید نظامی سے مجھے مرزا صاحب ہی نے متعارف کرایا۔ اس سلسلے میں حفیظ جالندھری کا ذکر پہلے ہی آ چکا ہے۔
سید عابد علی عابد، کرنل مجید ملک، اے ڈی اظہر، راجا حسن اختر، سید عبدالواحد (معروف اقبال شناس)، پیر حسام الدین راشدی، سید ضمیر جعفری، ڈاکٹر اسرار احمد، یوسف سلیم چشتی، غلام احمد پرویز اور ان کے علاوہ کئی نامور صحافیوں سے میری شناسائی مرزا منور ہی کی مرہونِ منت ہے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب سے میری ابتدائی ملاقاتیں مرزا صاحب کی اقامت گاہ پر ہوئیں جہاں وہ ان سے عربی زبان سیکھنے آیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ابھی وہ مرزا صاحب کی ہمسائیگی میں مطب کر رہے تھے اور ابھی انھوں نے درسِ قرآن کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا۔ یوسف سلیم چشتی انھیں عالمِ بے بدل کہتے تھے۔
مرزا صاحب نے بے شمار طالب علموں کی رہنمائی کی اور بہت سوں کی مالی مدد بھی کی۔ وہ محدود ذرائع رکھنے والے تھے۔ کوئی ملازم نہیں تھا۔ سارا کام ان کی بیوی کرتی تھی۔ میں اکثر ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے گرد آلود ڈھیر پڑے ہوتے تھے۔ اسی ماحول میں وہ دن رات مطالعے میں مستغرق رہتے۔ ایک دفعہ ان پر عرق النسا (شیاٹیکا) کا شدید حملہ ہوا۔ سنا ہے بڑا تکلیف دہ مرض ہے۔ وہ تکلیف برداشت کرتے رہتے لیکن کسی آنے والے کو اندازہ نہیں ہونے دیتے تھے۔ چند ماہ وہ اسی طرح تکلیف برداشت کرتے رہے۔ اس عرصے میں فلسفے کی کتابیں پڑھتے رہے اور جب افاقہ ہوا تو فلسفے میں ایم اے کر لیا۔ اردو اور عربی میں بہت پہلے وہ دو ایم اے کر چکے تھے۔
اکثر محققوں کو دمے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ وہ مرزا صاحب کو بھی تھی جو مستقل علاج نہ کرنے کی وجہ سے شدت اختیار کرتی رہی۔ آخر کار لاعلاج ہو گئی۔ پھر شوگر اتنی بڑھ گئی کہ قابو میں نہیں آتی تھی۔ آخر میو ہسپتال (البرٹ وکٹر وارڈ) میں داخل ہو گئے۔ یہ 2000ء کا سال تھا۔ فروری کے مہینے کا آغاز ہوا ہی تھا۔ میں ہسپتال میں مزاج پرسی کے لیے گیا۔ ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔ حافظہ بھی متاثر ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود صبر و ضبط کا یہ پیکر خاموشی سے لیٹا ہوا تھا۔
میرے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبۂ تاریخ کے ایک استاد شیر محمد گریوال تھے جنھیں مرزا صاحب بہت اچھی طرح جانتے تھے لیکن انھیں پوری طرح پہچان نہ سکے تاہم مجھے فوراً پہچان لیا۔ میں نے حال پوچھا تو فقط ایک جملہ کہا کہ شوگر کنٹرول میں نہیں آ رہی۔ خدا جانے کیا ہو گیا ہے؟ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔
7 فروری 2000ء کو میں 10 بجے کے قریب ایم اے کی کلاس پڑھا رہا تھا کہ عابد علی عابد پر بات ہونے لگی۔ اس سے مجھے مرزا منور یاد آ گئے اور میں چند منٹ ان کے بارے میں بات کرتا رہا۔ کلاس ختم کر کے میں گورنمنٹ کالج لاہور اپنے دوستوں سے ملنے چلا گیا۔ اتنے میں کسی نے آ کر بتایا کہ مرزا صاحب کا تھوڑی دیر پہلے انتقال ہو گیا ہے۔ عجب نہیں یہ وہی لمحہ ہو جب میں کلاس میں ان کو یاد کر رہا تھا۔ (ختم شد)
٭…٭…٭