سیاحت کو فروغ دینے کے اقدامات ضرور اٹھائیں مگر بھارت کے معاملہ میں مکمل محتاط رہیں
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کرتارپور آنیوالے زائرین کی پاسپورٹ‘ ویزہ اور بغیر فیس انٹری کی توثیق
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گورونانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کیلئے آنیوالے زائرین کی دو دن کی فیس معافی اور پاسپورٹ کی شرط ایک سال کیلئے ختم کرنے کی منظوری دیدی۔ وفاقی کابینہ کے فیصلہ کے تحت سیاحوں کیلئے ویزہ پالیسی میں نرمی کیلئے موجودہ پالیسی پر نظرثانی کی جائیگی۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کابینہ کے فیصلوں کے بارے میں پریس بریفنگ دی اور بتایا کہ اجلاس میں ملکی معیشت کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور گزشتہ اجلاس میں کئے گئے کابینہ کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔ وزیراعظم نے اجلاس میں تمام وفاقی وزارتوں کو ہدایت کی کہ وہ تین ماہ میں سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کو پایۂ تکمیل کو پہنچانے کیلئے انتھک محنت اور کوشش کریں‘ تمام وزراء اور وفاقی سیکرٹری اپنی وزارتوں میں عوامی مفادات کو پیش نظر رکھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں کرتارپور راہداری میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ وزیراعظم سیاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں‘ اس تناظر میں بابا گورونانک کے 550ویں جنم دن پر کرتارپور آنیوالوں کی دو دن کیلئے فیس معاف کردی گئی ہے جبکہ بیرونی دنیا سے آنیوالوں کی پاسپورٹ کی شرط ایک سال کیلئے ختم کردی گئی ہے۔ اب یاتری کوئی بھی دوسری شناخت دکھا کر کرتارپور راہداری کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو سکیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلہ کے تحت زیارت کیلئے آنیوالوں پر دس روز قبل فہرست کی فراہمی کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے اور یاتریوں کو موقع پر ہی ویزے فراہم کئے گئے ہیں۔ انکے بقول وزارت خارجہ کی جانب سے بتایا گیا کہ ہوائی جہازوں کے ذریعے پانچ ہزار یاتریوں کی کرتارپور آمد متوقع ہے جبکہ دو ہزار تک یاتری سرحد یا اندرون ملک سے آئینگے۔ اسی طرح واہگہ کے ذریعے بھی اس برس پانچ ہزار یاتریوں کی آمد متوقع ہے۔ وزیراعظم کا یہ عزم ہے کہ پاکستان کو دنیا کیلئے کھولا جائے‘ ویزہ پالیسی میں نرمی سکھوں کے علاوہ باہر سے آنیوالے سیاحوں کیلئے بھی ہوگی تاہم پاکستان کی سلامتی کے خطرات کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔
یہ درست ہے کہ بیرونی دنیا میں پاکستان کا ’’سافٹ امیج‘‘ اجاگر کرنے اور اسے اقتصادی ترقی و استحکام سے ہمکنار کرنے کیلئے سیاحت کو فروغ دینا اشد ضروری ہے۔ ہمارے قبائلی اور شمالی علاقہ جات کو سیاحت کے فروغ کیلئے بروئے کار لایا جائے تو ہمارا ملک بیرونی دنیا کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ ہمارا پہاڑی سلسلہ بطور خاص سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے جہاں قدرتی حسن کے مظاہر جابجا نظر آتے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالامال ہماری ارض وطن میں سیاحوں کیلئے بہت کشش ہے اور اس تناظر میں سیاحت کو قومی آمدن میں اضافے کا اہم ذریعہ بنایا جا سکتا ہے جس کیلئے بیرونی دنیا سے آنیوالے سیاحوں کیلئے ویزہ پالیسی پر نظرثانی کرکے پاکستان آنے کی آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں اور اسی طرح ملک کے سیاحتی مقامات پر قیام و طعام اور سیروسیاحت کی بہتر سہولتیں پیدا کرکے ان کیلئے ملک کے سیاحتی مقامات کی کشش پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح بیرونی دنیا سے لوگ جتنی زیادہ تعداد میں پاکستان آئینگے اور یہاں سے طمانیت قلب کے ساتھ واپس جائینگے تو وہ ہمارے لئے زرمبادلہ میں اضافہ کا باعث بھی بنیں گے اور بیرونی دنیا میں پاکستان کے سفیر کا کردار ادا کرتے ہوئے اس کا امن و آشتی کے ملک والا تشخص اجاگر کرنے میں بھی معاون بنیں گے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت ملک میں سیاحت کے فروغ میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھا رہی ہے جس کیلئے سیاحت کا فروغ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے ملک میں پھیلنے والے دہشت گردی کے ناسور نے ہماری ارض وطن کو ملک کے شہریوں کیلئے ہی نہیں‘ بیرونی دنیا سے آنیوالے لوگوں بشمول سیاحوں‘ سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقات کیلئے بھی غیرمحفوظ بنادیا اور بیرونی دنیا کے لوگوں نے سرمایہ کاری اور سیاحت و ثقافت کے فروغ کیلئے پاکستان آنا ترک کر دیا‘ نتیجتاً ہماری معیشت کو بڑا دھچکا لگا اور صنعت و معیشت کا پہیہ جامد ہو کر رہ گیا۔ آج ہماری سکیورٹی فورسز کی محنت شاقہ اور بے بہا قربانیوں کے نتیجہ میں دہشت گردی کا ناسور جڑوں سے اکھڑتا نظر آرہا ہے اوریہ ارض وطن دوبارہ امن و امان کا گہوارہ بن رہی ہے تو سیاحت و تجارت کی غرض سے بیرونی دنیا سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے۔ گزشتہ ماہ برطانوی شہزادے اور شہزادی کی پاکستان آمد اور ملک کے مختلف علاقوں کے آزادانہ دورے سے بھی بلاشبہ ملک کا امن و امان کے گہوارے والا روشن چہرہ اجاگر ہوا جس سے یقیناً سیاحت کے فروغ کا راستہ بھی ہموار ہوا ہے۔ اس تناظر میں بیرون ملک سے لوگوں کی پاکستان آمد کی راہیں آسان بنانے سے متعلق وفاقی کابینہ نے درست اقدامات اٹھائے ہیں تاہم بھارتی یاتریوں کو پاکستان آنے کیلئے پاسپورٹ اور ویزہ فری سہولتیں فراہم کرنا‘ انکی شناخت و جانچ پڑتال کے مراحل میں بھی نرمیاں پیدا کرنا اور ان سے کسی قسم کی انٹری فیس بھی نہ لینا ملک کی حفاظت و سلامتی کیلئے انتہائی مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ آج بھارت ہماری سلامتی کیخلاف جو اعلانیہ اور ننگی سازشیں کررہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد اس نے پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ہمارے شمالی علاقہ جات پر بھی نظربد جما رکھی ہے اور ان علاقوں کو اپنے نقشے میں بھارت کا حصہ قرار دیکر اپنے مذموم عزائم سے بھی اقوام عالم کو آگاہ کر دیا ہے‘ اسکے پیش نظر ہمیں بھارت کے ساتھ سفارتی‘ کاروباری اور دوستانہ تعلقات کے معاملہ میں انتہائی احتیاط ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہی تو ہے جس نے اقوام عالم میں ہمیں دہشت گرد ملک ثابت کرنے اور ہم پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا لبیل لگوانے کی مذموم سازش کے تحت ہماری سرزمین پر اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا خود اہتمام کیا جس کیلئے اس نے بلوچستان میں اپنے جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی سرپرستی میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک پھیلایا جسے نہ صرف دہشت گردی کے ذریعے ملک کا امن و امان تباہ کرنے بلکہ گوادر پورٹ اور سی پیک سمیت ملک کے ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کا بھی مشن سونپا گیا۔ بھارت کی اس گھنائونی منصوبہ بندی کا خود کلبھوشن اپنے اقبالی بیان کے ذریعے پردہ چاک کرچکا ہے جس کی بنیاد پر اسے سزائے موت ہوئی جو عالمی عدالت انصاف نے بھی برقرار رکھی ہے۔ کلبھوشن کے علاوہ بھی کشمیر سنگھ جیسے بے شمار بھارتی جاسوس دہشت گرد یہاں دہشت گردی کی گھنائونی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں جبکہ بھارت اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو زیادہ تر افغان سرحد سے پاکستان بھجواتا رہا ہے۔ اسی بنیاد پر ہمیں افغان سرحد پر باڑ لگانے اور گیٹ تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی جس پر بھارتی ایماء پر ہی کابل انتظامیہ کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کیا جاتا رہا ہے اور افغان فورسز ہماری چیک پوسٹوں پر حملہ آور بھی ہوتی رہی ہیں۔
بھارتی سکھوں کو بابا گورونانک کے عرس میں شمولیت اور یہاں موجود گوردواروں کی زیارت کیلئے پاکستان آنے کی سہولتیں فراہم کرنا بلاشبہ ایک اچھا اقدام ہے جس کیلئے گزشتہ سال بھارتی پنجاب کے وزیر اور دانشور کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کی فرمائش پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کرتارپور راہداری کھلوانے کیلئے معاون بننے کا اعلان کیا تھا جسے وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت نے پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ وزیراعظم اس ماہ 9‘ نومبر کو کرتارپور راہداری کا باضابطہ افتتاح بھی کررہے ہیں۔ اس راہداری کے حوالے سے گزشتہ ماہ 24 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ یہ راہداری بنیادی طور پر سکھ زائرین کو سہولت فراہم کرنے کیلئے کھولنے کا فیصلہ ہوا تاہم اس کیلئے طے پانے والے معاہدے میں سکھوں ہی نہیں‘ ہندوئوں سمیت تمام مذاہب کے بھارتی باشندوں کو کرتارپور راہداری کے ذریعہ پاکستان آنے کی اجازت دیدی گئی جو پاکستان کی سلامتی کے تقاضوں کے حوالے سے احتیاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے کے مترادف تھا۔ اسی طرح ابتدائی طور پر یہ بھی طے کیا گیا کہ بھارتی سکھ یاتری بھارت سے پیدل سرحد عبور کرکے کرتارپور راہداری کے ذریعے پاکستان میں داخل ہونگے جن کی مکمل جانچ پڑتال کی خاطر بھارت دس روز قبل ان یاتریوں کی فہرست پاکستان کو فراہم کریگا جبکہ ان کیلئے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ہمراہ لانا بھی لازمی شرط قرار دی گئی اور اسی طرح ہر یاتری سے 20 ڈالر انٹری فیس لینا بھی لازمی قرار دیا گیا مگر وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے گلگت میں ایک پبلک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کرتارپور آنیوالے یاتریوں کیلئے انٹری فیس کے علاوہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی شرط بھی ختم کرنے کا اعلان کردیا جس کی گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں توثیق کی گئی ہے۔ اس پر ملک کی سلامتی کے حوالے سے قوم میں خدشات و تحفظات پیدا ہونا فطری امر ہے کیونکہ یاتریوں کو دی جانیوالی ان سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر بھارت ہماری سرزمین کو پھر اپنے دہشت گردوں کے ذریعے خون میں نہلا سکتا ہے اور بیرونی دنیا میں اسکے قطعی غیرمحفوظ ہونے کا تاثر اجاگر کر سکتا ہے جو اس کا ایجنڈا بھی ہے۔
بھارت کی مودی سرکار جس انداز کے مظالم کا سلسلہ گزشتہ 94 روز سے مقبوضہ کشمیر میں جاری رکھے ہوئے ہے اور اب اس نے آزاد کشمیر اور ہمارے شمالی علاقہ جات کو بھی ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کا اظہار بھارتی نقشے میں تبدیلی عمل میں لا کر کیا ہے جس پر گزشتہ روز ملائشیا میں اسلامی تنظیموں کی مشاورتی کونسل نے بھی سخت تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے اشتعال انگیزی قرار دیا ہے چنانچہ اس بھارتی بدنیتی کو پیش نظر رکھ کر ہمیں بھارت سے متعلق ہر معاملہ میں مکمل احتیاط ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں سیاحت کے فروغ کیلئے بیرونی دنیا کے لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنا بے شک درست اقدام ہو سکتا ہے مگر ہمیں کرتارپور راہداری کے ذریعہ بھارت سے آنیوالے لوگوں کی نگرانی اور جانچ پڑتال میں ایسی کوئی نرمی اختیار نہیں کرنی چاہیے جس سے بھارت کو زائرین کے بھیس میں اپنے جاسوس اور دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کی سہولت مل سکتی ہو۔ ہماری سلامتی کیخلاف مودی سرکار کے اب تک کے اعلانات و اقدامات ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں ہرصورت پیش نظر رکھنا ہونگے۔