جمعرات‘ 9 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 7؍ نومبر2019 ء
آزادی مارچ کی وجہ سے اسلام آباد میں آٹے اور دودھ کی قلت
یہ قلت ہی دکانداروں کے حق میں رحمت بن رہی ہے جو دن رات تندور اور ہوٹل چلا رہے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں قائم مارچ بستی بسانے والوں کے لیے کھانا اور چائے بناتے ہیں۔ انتظامیہ رو رہی ہے کہ لاکھوں مارح کے شرکا کئی کئی روٹیاں کھا جاتے ہیں۔ موسم کی وجہ سے سارا دن بلکہ رات گئے تک چائے کا دور دورہ رہتا ہے۔ اس وجہ سے اسلام آباد میں دودھ اور آٹے کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ حیرت کی بات ہے آٹے اور دودھ کا رونا رونے والوں کو حلوہ یاد نہیں آ رہا جس کی وجہ سے گھی چینی اور سوجی کی قلت کا بھی رونا رویا جا سکتا ہے۔ حکومت کے بیشتر وزراء اس مارچ کو حلوہ مارچ کا نام دے رہے تھے جو ان کے لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوہے کا چنا ثابت ہو رہا ہے۔ پہلے مارچ والوں کی سنی ان سنی کی جاتی رہی۔ اب مذاکراتی ٹیمیں حلوہ کھانے کیلئے مارچ والوں سے مل رہی ہیں۔ اب دیکھنا ہے یہ حلوہ کس کے نصیب میں آتا ہے۔ مارچ والوں کے یا حکومت کے۔ مولوی حضرات ویسے بھی روٹیوں کے معاملے میں ہاتھ کھلا رکھتے ہیں۔ خوب کھاتے ہیں ۔ سالن ہو یا چائے یا پھر سادہ روٹی وہ آرام سے کھا لیتے ہیں۔ مگر یہ بری بات ہے کہ کوئی ان کی روٹیاں گننے لگے ایک کھائیں یا 10 ان کی مرضی۔ تندور والے تو خوشیاں منا رہے ہیں کہ ان کی سیل بڑھ گئی ہے۔ یہی حال دودھ والوں کا ہے چائے فروشوں کا ہے۔ اگر مارچ والوں کی وجہ سے ان کا کاروبار چل رہا ہے تو خوش ہونا چاہئے ورنہ پورے ملک کے کاروباری مندے کا رونا رو رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کسی کو سبزی اور دال کا خیال کیوں نہیں آیا کہ وہ سب بھی مارچ والے چٹ کر جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
امرتسر میں شکریہ عمران خان کے بل بورڈ اور بینر آویزاں
کرتار پور راہداری کی تکمیل اور گوردوارہ کرتاپور کودنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ بنانے کا سہرا درحقیقت جاتا ہی عمران خان کے سر ہے جنہوں نے سکھوں کے ساتھ کئے اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں یہ انمول تحفہ دیا، ورنہ سکھ مشرقی پنجاب کی سرحد پہ کھڑے ہو کر دور بینوں سے اپنے اس مقدس گوردوارے کی زیارت کرتے تھے۔ آرتی اتارتے تھے اور اسے پرنام کرتے تھے۔ اب وہ کھلی آنکھوں سے اپنے قدموں پر چل کر وہاں مذہبی رسومات ادا کریں گے۔ اس کام کا سہرا نوجوت سنگھ سدھو کے سر بھی جاتا ہے جنہوں نے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف سے خصوصی طور پر اس کام کے لیے درخواست کی تھی اور یہ خواب جو ہر سکھ کی آنکھوں میں بسا تھا ایک سال کی قلیل مدت میں پورا ہوگیا۔ اسی لیے امرتسر کی سڑکوں پر عمران خان شکریہ کے بینروں اور بل بورڈز میں ان کی تصویر بھی مسکرا رہی ہے۔ معلوم نہیںمشرقی پنجاب کی حکومت اس پر کتنی سیخ پا ہو رہی ہو گی اور بی جے پی کی مرکزی ہندو انتہا پسند حکومت کے تو دل پر چھریاں چل رہی ہوں گی۔ سکھوں اور پاکستانیوں میں خوشگوار تعلقات قائم ہوں یہ ان سے کب برداشت ہوتا ہو گا انہیں تو اس میں بھی خالصتان بنتا نظر آ رہا ہو گا جس کا اگلے سال ریفرنڈم سکھ کرا رہے ہیں اور ابھی سے بھارتی حکمرانوں کے کانوں میں ’’راج کریگا خالصہ باقی رہے نہ کو‘ کی آوازیں گونجنے لگی ہیں۔
٭٭٭٭
قومی بچت سکیموں کی شرح منافع میں کمی کر دی گئی
ایک طرف ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ عوام میں بچت کا شعور نہیں۔ پھر یہ شعور بیدار کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے قومی بچت سکیموں کو متعارف کرایا جاتا ہے۔ بنکوں کی طرف سے عوام کو راغب کرنے کے معقول منافع کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں۔ انعامی بانڈز جاری ہوتے ہیں مگر ابھی تک عوام میں بچتوں کا وہ شعور بیدار نہیں ہو سکا جو ہونا چاہئے۔ اس کی وجہ عوام کی لاعلمی یا کم عقلی نہیں۔ حکومت اور بنکوں کی دوغلی پالیسی ہے ۔ پہلے عوام کو بہلا پھسلا کر زبردست منافع کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس کام میں قومی بچت سکیمیں نمایاں تھیں۔ جب غریب عو ام مشکل سے بچائی رقم وہاں جمع کراتے ہیں تو پھر اچانک منافع کی شرح میں کمی کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ یوں غریب بے چارے سر پیٹ کررہ جاتے ہیں۔ بنکوں کی تو بات ہی نہ کریں وہ تو صرف اپنے منافع کی فکر میں رہتے ہیں۔ قومی بچت سکیمیں غریبوں کے لئے روز گار اور محفوظ منافع کمانے کا ذریعہ ہیں۔ اب کچھ عرصہ قبل ان کی شرح منافع میں اچھے خاصے اضافے کا اعلان کیا گیا۔ مگر اب اچانک گزشتہ روز اس پر چھری چلا دی گئی۔ کمالِ حسن انتظام بھی دیکھئے منافع کی شرح میں کٹوتی یکم نومبر سے لاگو بھی ہو چکی ہے۔ عوام الناس کو بذریعہ نوٹیفکیشن اطلاع 6 نومبر کو دی جا رہی ہے۔ ہے نہ عجیب بات۔ اب وہ لاکھوں لوگ جنہوں نے اچھے منافع کی خاطر رقم جمع کرائی رو رہے ہوں گے اور حکومت کہتی پھرے گی لوگوںمیںبچتوں کا رحجان نہیں۔
٭٭٭٭٭
بی جے پی کے رہنما کا گائے کے دودھ میں سونا ہونے کا دعویٰ۔ سائنسدان پریشان
اب یہ منطق جس شخص نے پیش کی ہے اس کا نام دلیب گوش ہے۔ اس بے عقلے کو تو یک بینی و دوگوش پکڑ کر کسی پاگل خانے میں داخل کرنا چاہئے۔ عقل سے عاری اس پیدل سواری نے تو خود بھارت کے سائنسدانوں کو بھی مبہوت کر کے رکھ دیا ہے جو بے چارے ابھی تک یہ اہم راز جان نہ سکے جو اس فاتر العقل شخص نے جان لیا اور اسے عام بھی کر دیا۔ اگر گائے کے کوہان پر سورج کی روشنی پڑنے سے دو دھ میں سونا بنتا ہے تو پھر بدرجہ اولی گائے کی نسبت اونٹنی کے دودھ میں تو سونا ہی سونا ہونا چاہئے کیونکہ اونٹ کا کوہان گائے سے کئی درجہ زیادہ بڑا ہوتا ہے اور اونچا ہونے کی وجہ سے سورج کے قریب تر ہوتا ہے۔ کئی اونٹ تو دو کوہانوں والے بھی ہوتے ہیں جو چین میں پائے جاتے ہیں۔ اگر گائے کے دو دھ میں سونے کی بات صحیح ہے تو آج تک برصغیر میں سونے کی چہل پہل کیوں نہیں ہوئی جہاں کروڑوں گائیں موجود ہیں۔ ہاں البتہ گائے کے دودھ میں ملاوٹ کر کے دودھ فروش ضرور کروڑ پتی ہو گئے۔ صدیوں سے لوگ گائے کا دودھ استعمال کرتے ہیں۔ اسے استعمال سے پہلے ابالتے بھی ہیں تاکہ جراثیم مریں اور دودھ خراب نہ ہو۔ مگر کسی امیر یا غریب کی پتیلی میں سے سونے کا ایک ذرہ بھی برآمد نہیں ہو سکا۔ آخر یہ سونا جاتا کہاں ہے اس کا جواب بھارت کے سائنسدان اب اس پاگل سے پوچھیں جو ایسی بے سروپا باتیں کر کے دنیا بھر میں بھارتیوں کی جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے۔
٭٭٭٭٭