بھارتی آبی جارحیت ، تباہ کن جنگ کا نقارہ
ہر خاص و عام کی زبان ہے‘‘ مجید نظامی سچا اور کھرا پاکستانی ہے جب انہوں نے کہا بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو ڈیمز بنائے ہیں مجھے میزائل کے ساتھ باندھ کر ان پر پھینک دیا جائے تو یہ پوری شدت کے ساتھ اس احساس کو اجاگر کرنا تھا کہ پاکستانی دریائوں پر ڈیمز بنا کر بھارت ایک ناپاک منصوبے کے تحت پاکستان کو بنجر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کوشش کو بھرپور انداز سے ناکام بنا دیا جائے۔ جناب مجید نظامی ہی نہیں کئی صاحب ادراک یہ رائے رکھتے ہیں پاکستان اور بھارت کے مابین تباہ کن جنگ پانی کے مسئلے پر ہو سکتی ہے ’’چار پانچ سال پہلے تحریر کردہ اپنے کالم کا یہ اقتباس لوح ذہن پر اجاگر ہوا جب یہ خبر پڑھی کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم میں پانی روک لیا ہے جس کے نتیجے میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی بچپن ہزار کیوسک سے کم ہو کر 7218 کیوسک رہ گیا ہے جس سے نہ صرف دریائے چناب کا 97 %حصہ خشک ہو گیا بلکہ نہر مرالہ راوی لنک گزشتہ 27/26 روز سے بند ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا ارتکاب ایک مسلسل روش کی صورت اختیار کر گیا ہے اور اگر بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین تباہ کن جنگ کو نہیں ٹالا جا سکے گا۔
بھارت پاکستان کے خلاف آبی جارحیت ہی نہیں فوجی جارحیت کا بھی مرتکب ہو رہا ہے۔ کنٹرول لائین اور ورکنگ بائونڈری پر خلاف ورزیوں کا سلسلہ تو وقفہ وقفہ سے جاری ہی رہا ہے مگر جب سے بھارت میں مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے اس کے بعد سے تو کنٹرول لائین پر شاید ہی کوئی دن ہو جب بھارت کی جانب سے خلاف ورزی نہ کی گئی ہو، بلااشتعال فائرنگ سے آزاد کشمیر میں عام شہریوں کو جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں شہید و زخمی نہ کیا گیا ہو، پاکستانی فوجی جوانوں کی شہادتوں اور زخمی ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے اس کے باوجود کہ پاکستانی فوج کی جانب سے بھرپور جوابی کارروائی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں بھارتی فوجی واصل جہنم اور زخمی ہو رہے ہیں اور ان کی چوکیاں تباہ ہو چکی ہیں۔ مگربھارت کی جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ادھر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا نفاذ 100 ویں دن کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس اذیت رساں صورتحال میں بھارتی فوج کی جانب سے ظلم و تشدد کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے حالانکہ کشمیری عوام اپنی حقِ خودارادیت کی جائزہ قانونی جدوجہد پرامن انداز سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارتی فوجی گھروں میں گھس کر نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار اور خواتین کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایسے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے جن سے مقبوضہ کشمیر تو کیا خود پاکستان کے لوگوں کو محسوس ہو کہ ان کے نتیجے میں مودی سرکار کسی قسم کے دبائو کا شکار ہو کر مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا سلسلہ روکنے یا کم کرنے پر مجبور ہو رہی ہو، وزیراعظم عمران خان کے جنرل اسمبلی میں خطاب کو ہی حرف آخر سمجھ لیا گیا ہے اب اس کے بعد مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے حیرت ہے گلگت بلتستان جسے بھارت نے حال ہی میں اپنے نقشے میں شامل کر کے بین الاقوامی قوانین سے انحراف کیا ہے اس گلگت بلتستان میں کھڑے ہو کر کشمیر سے زیادہ وزیر اعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور میاں نواز شریف اور آصف زرداری کو این آر او نہ دینے کی بات کی حالانکہ اس مقام کا تقاضا تھا کہ یہاں بھارت کے غیر قانونی اقدامات اور مقبوضہ کشمیر تک محدود رہا جاتا۔ آزادی مارچ اور این آر او کا تذکرہ چند گھنٹے بعد اسلام آباد واپس آ کر ہی ہو سکتاتھا ۔
دریں اثناء پاکستانی میڈیا کی پہلے بھی مقبوضہ کشمیر کی جانب توجہ کم تھی اب تو ساری توجہ کا مرکز مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ ہے۔ ’’یوم جموں‘‘ بھی ایسے ہی رویہ کا شکار رہا۔ تاہم پاکستان کے عوام پورے اخلاص کے ساتھ کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے۔