مسلمان نماز پڑھتے ہیں تو شیطان سے پناہ مانگتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ اللہ بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنیوالا ہے۔ سیدھے راستے پر چلنے کی دعا کرتے ہیں ۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ؐ اور تمام انبیاء پر درود اور سلام بھیجتے ہیں مگر عملی زندگی میں عموماً نماز کی روح کے برعکس کام کرتے ہیںنماز اور عمل کے تضاد کے دلخراش مناظر گزشتہ دنوں عوام نے پاکستان کی سڑکوں پر دیکھے۔ عشق رسولؐ کا دعوی کرنیوالوں نے بے گناہ شہریوں کے موٹرسائیکلوں ، گاڑیوں اور سرکاری املاک کو نذر آتش کیا۔ سکولوں ، دفتروں ، فیکٹریوں، مارکیٹوں اورہسپتالوں میں جانے والوں کے راستے روکے ۔ امن و امان کو برباد کیا۔ جس کا بس چلا اس نے دوسروں کے مال اور سامان کو لوٹا ۔ رحمتہ لالعالمین اور محسن انسانیت کے نام نہاد عاشق دوسروں کیلئے زحمت بن گئے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کے قوانین موجود ہیں مگر پرانے پاکستان میں فیض آباد کے المناک دھرنے کے بعد اور نئے پاکستان میں شرمناک لاک ڈائون کے بعد ریاست نے اپنی رٹ نافذ کرنے کی بجائے انتہا پسندوں کے آگے سرینڈر کر دیا ۔ ناموس رسالتؐ کے علمبرداروں نے ریاستی اداروں کو للکارا ، ججوں جرنیلوں اور سیاست دانوں کیخلاف کفر اور واجب القتل کے فتوے صادر کیے ان پر آئین اور قانون کے نفاذ کے دعوے تو کیے جاتے ہیں مگر ان دعوئوںپر عمل در آمد نہیں ہوتا۔یہی پاکستان کی بدقسمت تاریخ ہے۔تاہم یہ بھی مثبت پہلو ہے کہ حکومت شاید طعنہ زنی کے باعث اب املاک تباہ کرنے والوں کیخلاف سرگرم ہے اور بزروں شرپسندوں پر مقدمہ درج اور گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
قرآن اور سیرت کی بنیادی تعلیمات سے مکمل انحراف کی بناء پر ہم انتہا پسندی اور عدم برداشت کا شکار ہوئے ہیں اسلام کو علماء کی گفتار کے بجائے قرآن اور سیرت کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے قرآن ترجمے سے پڑھ کر اور سیرت کا مطالعہ کرکے ہی ہم اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھ سکتے ہیں اور اس پر عمل کرکے اپنے سماج کو امن اور سلامتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں قرآن ہی ہمارا محور و مرکز اور ہدایت کا بنیادی سورس ہونا چاہیے ماور ائے قرآن رویے اور نظریے ہمارے لئے گمراہ کن ثابت ہو سکتے ہیں ۔ قرآن اچھی گفتگو اور نرم لہجے کی تلقین کرتا ہے ارشاد ربانی ہے ’’ چنانچہ تم دونوں اس سے نرم بات کہنا شاید کہ وہ نصیحت پکڑے اور ڈرے (44-20) ’’ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی ( وقار اور عاجزی) سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے ‘‘ (63:25) ’’ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بات کہیں جو احسن( اچھی ) ہو ۔ بے شک شیطا ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے ۔ شیطان انسان کا کھلادشمن ہے ‘‘ (54:17) جب اللہ کے رسولؐ نے تبلیغ کا آغاز کیا تو مشرکین نے ان سے اشتعال انگیز اور توہین آمیز گفتگو کی اور آپؐ کو جبر و تشدد کا نشانہ بنایا ۔ اللہ نے اپنے رسولؐ کو ہدایت کی ۔
’’ اے نبی اللہ کی طرف سے رحمت کی وجہ سے ہی آپ ان کیلئے نرم ہو گئے ہیں اور اگر آپ بدخلق، سخت دل ہوتے تو یقیناً وہ آپکے گرد سے منتشر ہو جاتے‘‘(159:3)
’’اے نبی اپنے رب کے راستے کی طرف حکومت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے اس طریقے سے بحث کیجئے جو سب سے اچھا ہو‘‘(125:6)
اللہ نے اپنے رسول ؐ کو سخت زبان استعمال کرنے اور عدم برداشت کی اجازت نہیں دی اللہ کے بندے انتہا پسندی کے مرتکب کیسے ہو سکتے ہیں اور انتہا پسند عاشق رسول ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ اللہ نے قرآن میں فتنہ فساد کو قتل سے زیادہ برا قرار دیا ہے۔(191:2)
’’ اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق (نافرمان) ہیں اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جسے موڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔(26-27:2)
قرآن کی واضح آیات کی روشنی میں ایک مسلمان کسی صورت انتہا پسند نہیں ہو سکتا جو لوگ انتہا پسندی کا شکار ہیں وہ قرآن و سیرت کی روشنی میں اپنی اصلاح کرکے توبہ کریں۔ قرآن کیمطابق عفو، در گزر اور برداشت اسلام کے سنہری اصول ہیں۔ اللہ کے رسول ؐ نے برداشت کے اعلیٰ نمونے پیش کیے۔ مکہ کے کفار نے انکو اذیتیں دیں اور توہین کے مرتکب ہوئے مگر آپ ؐ نے اکثر اوقات اپنے صحابہ کو صبر، تحمل اور برداشت کا سبق دیا۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ قانون کے مطابق توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے کو سزا دے۔ آپ ؐ نے طائف کے میدان میں پتھر مارنے والوں کو معاف کردیا۔ ابو سفیان کو نہ صرف معاف کیا بلکہ اسکے گھر کو پناہ گاہ قرار دیا۔ آپؐ نے اپنے چچا حمزہ ؓ کا کلیجہ چبانے والی عورت کو معاف کردیا۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینے آیا آپؐ نے خود ان کی خاطر مدارت کی اور ان کو مسجد نبوی میں عیسائی عقیدت کے مطابق عبادت کی اجازت دی۔ اللہ کے رسول ؐ نے عیسائیوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا جو آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں اقرار کیا گیا ’’عیسائی ہمارے شہری ہیں خدا کی قسم میں ہر اس عمل کے خلاف ہوں جو انہیں ناخوش کرے گا‘‘۔
مولانا سمیع الحق کا وحشیانہ قتل افسوسناک اور قابل مذمت ہے مولانا ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ وہ پاکستان کے آئین کے ساتھ جڑے رہے اور ریاست کے وفادار رہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کے بعدا نہوں نے دینی مدارس کے نصاب پر نظرثانی کا فیصلہ کیا تاکہ طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جائے اور طلبہ ریاست کے مختلف شعبوں میں فرائض سنبھال سکیں۔ سرسید احمد خان عظیم مفکر اور مورخ تھے۔ انہوں نے علی گڑھ کالج کے طلبہ کو مذہبی علوم سے روشناس کرانے کیلئے دارالعلوم ندوہ سے اشتراک کیا اور طلبہ کو ایک سمسٹر کیلئے دارالعلوم ندوہ بھیجا جاتا جبکہ دارالعلوم کے طلبہ ایک سمسٹر علی گڑھ کالج میں کرتے۔ پاکستان کے دینی مدارس کو بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ جوڑنا چاہیے تاکہ دینی مدارس کے طلبہ بھی ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور سول سرونٹس بن سکیں۔ سکولوں کی سطح پر ناظرہ قرآن کی تعلیم بھی لازمی قرار دی جائے تاکہ ہمارے لیڈر کم از کم سورۃ اخلاص تو درست پڑھ سکیں۔ مولانا سمیع الحق کا قتل انتہاء پسند کلچر کا شاخسانہ ہے جو فرقہ وارانہ نصاب کی وجہ سے پروان چڑھا ہے۔ نصاب قرآن اور سنت کی روشنی میں تیار کیا جانا چاہئے جو فرقہ واردیت سے پاک ہو۔ مولانا سمیع الحق صاحب کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی لاہور میں ہوئی۔ مولانا نے فون کرکے اظہار خیال کی دعوت دی انکے فرزند ارجمند کتاب کا تحفہ دینے گھر پر تشریف لائے۔ مولانا سمیع الحق صاحب سے ایک ملاقات ایس ایم ظفر صاحب کے دفتر لاہور میں ہوئی۔ اللہ انکے درجات بلند کرے اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024