سینیٹ: مرد م شماری کے عبوری نتائج پر اعتراضات‘ اپوزیشن ‘ حکومتی اتحادی اراکین کا واک آﺅٹ
اسلام آباد (خبر نگار) سےنٹ مےںمردم شماری کے نتائج پر اراکےن کے تحفظات اور متحدہ اپوزےشن کا اس حوالے سے واک آو ¿ٹ، سینیٹر تاج حیدر کی تحریک ایجنڈے پر تھی۔ چیئرمین سینیٹ نے بتایا کہ متعلقہ وزیر چھٹی پر ہیں ¾سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ یہ بہت اہم ہے معاملہ ہے، سندھ اسمبلی نے اتفاق رائے سے مردم شماری کو مسترد کیا ہے۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ ہم اس معاملے پر ایوان بالا کے اجلاس سے واک آﺅٹ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان واک آﺅٹ کر گئے۔۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے چیئرمین سینیٹ کو بتایا کہ بروقت الیکشن کرانے کے لئے آرٹیکل 51(5) میں ترمیم کی ضرورت ہے، اس حوالے سے پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر چیز کا الزام حکومت پر عائد کرنا درست نہیں، یہ کہنا بے جا ہے کہ حکومت اس معاملے میں تاخیر کر رہی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے مجھے اور سپیکر قومی اسمبلی کو اس حوالے سے خط بھی لکھا ہے۔ انہوں نے سینیٹر تاج حیدر کو کہا کہ مردم شماری کے حوالے سے (آج) منگل کو تحریک التواءلے آئیں ¾ اس پر بحث کرا لی جائےگی۔ پیر کو اجلاس کے دوران مردم شماری 2017ءکے حوالے سے تحفظات سے پیدا ہونے والی صورتحال کو زیر بحث لانے کیلئے سینیٹر سسی پلیجو نے ایوان میں بغیر مائیک کے زور سے بولتے ہوئے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ چیئرمین نے انہیں خاموش کرانے کےلئے انہیں اپنی نشست پر بیٹھنے اور خاموش رہنے کے لئے کہا لیکن وہ چیئرمین کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے بغیر مائیک کے زور زور سے بولتی رہیں اور بعد ازاں وہ بھی واک آﺅٹ کر گئیں۔قبل ازےں سےنٹ کا اجلاس پےر کو سہ پہر تےن بجے تلاوت کلام پاک کے بعد چےرمےن سےنٹ مےان رضا ربانی کی صدارت مےں ہوا ۔ اجلاس کے دور ان وفاقی دارالحکومت اسلام آباد دوکانیں، کاروبار و صنعتی ادارے (تحفظ) (ترمیمی) بل 2017ءکی منظوری دیدی گئی۔ حکومت نے بل کی مخالفت نہیں کی۔ چیئرمین نے بل کی شق وار منظوری حاصل کرنے کے بعد حتمی منظوری کے لئے بل ایوان میں پیش کیا۔ ایوان بالا نے بل کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔چیئرمین سینٹ نے فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2017ءمتعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ سینیٹر کریم احمد خواجہ کا مجموعہ تعزیرات پاکستان 1860 اور مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898 میں مزید ترمیم کا بل فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2017ءقائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں زیر غور لانے کے لئے ایجنڈے پر تھا، چیئرمین نے بل متعلقہ کمیٹی کو بھجواتے ہوئے 30 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ سینیٹر اعظم سواتی نے تحریک پیش کی کہ صنعتی تعلقات ایکٹ 2012ءمیں مزید ترمیم کا بل صنعتی تعلقات (ترمیمی) بل 2017ءپیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ حکومت نے بل کی مخالفت نہیں کی۔ چیئرمین نے بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔چیئرمین سینٹ نے انتخابات (ترمیمی) بل 2017ءمتعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ سینیٹر اعظم سواتی نے تحریک پیش کی کہ انتخابات ایکٹ 2017ءمیں مزید ترمیم کا بل انتخابات (ترمیمی) بل 2017ءجس کے تحت نئی دفعہ 48 ایف اور دفعہ 241 کا اضافہ کیا جاتا ہے، پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ چیئرمین نے حکومت کی رائے طلب کی۔ وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا جائے جس پر چیئرمین نے بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔اراکین سینٹ نے کہاہے کہ ملک میں غیر معیاری، ناقص اور جعلی ادویات مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں، کھانے پینے کی چیزوں اور دواﺅں میں بہت ملاوٹ ہو رہی ہے ¾ڈرگ انڈسٹری پر بہت شکوک و شبہات ہیں ¾ادویات کے معیاری ہونے پر کسی کو تسلی نہیں ہے جبکہ وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے کہا ہے کہ مارکیٹ سے ساڑھے پانچ ہزار دواﺅں کے سیمپلز لئے گئے‘ دواﺅں پر بار کوڈ متعارف کرائے۔ پیر کو سینٹ اجلاس کے دور ان اعظم سواتی نے ادویات کی دستیابی، معیار اور ان کی قیمتوں میں اضافے پر نظر رکھنے کے خصوصی حوالے سے ڈرگ ریگولیٹری آف پاکستان کی مجموعی کارکردگی کو زیر بحث لانے کی اپنی تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈرگ انڈسٹری کے اوپر بہت شکوک و شبہات ہیں، ادویات کے معیاری ہونے پر کسی کو تسلی نہیں ہے، ڈرگ انڈسٹری پر کسی کو اعتماد نہیں ہے، عوام کا اعتماد بحال کرنے کےلئے قوانین کو تماشا بنانے والوں کے کارٹیل کو توڑنا ہو گا۔ سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور ڈرگز کے حوالے سے سینٹ کی کمیٹی نے بہت کام کیا ہے، ہمارے ملک میں اربوں کی ادویہ باہر کے ملکوں میں بھیجی جا رہی ہیں، اگر یہ ادویات ناقص اور غیر معیاری ہوتیں تو امریکہ اور کینیڈا جیسے ملکوں میں ہماری ادویات نہ جا رہی ہوتیں، اس حوالے سے ڈریپ کا بڑا کردار ہے، جسے سراہنا چاہیے، اس وقت ساڑھے 850 کمپنیاں ہیں، جن میں سے کئی بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہیں، سینیٹر اعظم سواتی کی باتوں اور خالیات سے اتفاق نہیں ہے۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ ادویات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جس کو چیک کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کو غیر معیاری اور جعلی ادویات کو روکنا چاہیے۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ پورے ملک میں غیر معیاری ادویات فروخت ہو رہی ہیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ادویات میں غیر معیاری مٹیریل استعمال کیا جا رہا ہے، ادویات پر کسی کی مناپلی نہیں ہونی چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف ملے۔ سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ ادویات پر خرچ بہت کم آتا ہے لیکن اس کی بے تحاشا قیمت مقرر کر دی جاتی ہے، اس میں بہت سے لوگوں کا کمیشن ہوتا ہے۔ یہ معاملہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔ پرائیویٹ کمپنیاں ڈاکٹروں کو بیرون ملک سیریں کراتے ہیں اور گاڑیاں دیتے ہیں اور وہ کمپنیوں کی ادویہ لکھ کر دیتے ہیں۔ چیئرمین اس پر رولنگ دیں۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ امریکہ میں ایف بی اے بہت بڑا مافیا ہے، کیوبا کی سستی دوائیں وہاں نہیں لانے دیتے، پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے، پاکستان میں بھٹو نے اس سلسلے میں اہم اقدامات کئے، پاکستان میں خوراک اور ادویات میں بہت ملاوٹ ہوتی ہے، بڑی فارما کمپنیاں بہت پیسے کما رہی ہیں، بھارت میں ادویات بہت سستی ہیں اور معیار بھی بہتر ہے۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ ملاوٹ کرنے والوں کو اللہ کا خوف نہیں ہے، ملاوٹ کی وجہ سے بیماریاں عام ہیں، حکومت اس حوالے سے اقدامات کرے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ سندھ میں دو مقامات پر مفت لیور ٹرانسپلانٹ ہو رہا ہے، دواﺅں کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے، ادویات کے معیار اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی ضڑورت ہے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ڈاکٹروں کو مخصوص ادویات فروخت کرانے کے عوض گاڑیاں دی جاتی ہیں، سٹنٹس کا معاملہ بھی بہت اہم ہے، غیر معیاری ادویات وبال جان بن چکی ہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی اور ادویات کی قیمتوں اور معیار کی جو تصویر کشی یہاں کی گئی ہے وہ درست نہیں، جب بھی کوئی دوائی رجسٹرڈ ہوتی ہے تو اس کی دستیابی کو یقینی بنانا ضروری ہوتا ہے، ٹی بی کی دوائیوں کی کمی ہوئی تو ان کمپنیوں کو کہا گیا کہ دوائی کی دستیابی کو یقینی بنائیں اور ایسا کیا گیا، چھ ماہ سے کسی دوائی کی قلت نہیں، جو تین سال میں ہم نے دواﺅں کے معیار کے حوالے سے کیا ہے 70 سال میں نہیں کیا گیا، ساڑھے پانچ ہزار سیمپلز مارکیٹ سے لئے گئے اور 1450 کیس رجسٹرڈ کئے گئے اور دو آدمیوں کو دس دس سال قید کی سزا ہوئی۔ 880 کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہے جن میں متعلقہ کمپنیوں کو ساڑھے 3 کروڑ جرمانہ ہوا ہے، جہاں جہاں جعلی ادویات بنتی ہیں وہاں چھاپے مارے گئے ہیں، فیکٹریوں کا معائنہ کیا جاتا ہے اس کے بعد لائسنس دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سوائے دو کے کسی دوائی کا خام مٹیریل نہیں، ہم آئے تو انڈسٹری میں کوئی دوا کسی عالمی ادارے سے منظور شدہ نہیں تھی، چار کمپنیاں ڈبلیو ایچ او کے تمام پروٹوکولز کر چکی ہیں، ہم نے بارکوڈنگ متعارف کرائی ہے، بار کوڈ سے دوا کے جنیوئن ہونے کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔