جہیز نہ لانے اور بیٹیوں کی پیدائش پر طعنے
احمد جمال نظامی
انسانی رویے کسی بھی معاشرے کا حقیقی پیمانہ قرار پاتے ہیں۔ رویوں میں اپنائیت، مٹھاس اور پیار معاشروں میں مثبت پہلوؤں کو فروغ دیتے ہیں تو پرسکون ذہن کی حامل قوم تحقیق اور کئی میدانوں میں بڑے بڑے معرکے سر کرتی چلی جاتی ہے لیکن جس معاشرے میں انسانی رویے حیوانیت کا روپ اختیار کر لیں اور لوگ ایک دوسرے کو اپنے سے کمتر تصور کرتے ہوئے خود کو ہرفن مولا قرار دینے لگیں اور ہر کوئی اپنے دل و دماغ کے دامن میں یہی گمان بد رکھنے لگے کہ وہ تمام اشرف المخلوقات سے افضل ہے تو پھر ایسے معاشروں میں صنفی تضاد اور عدم مساوات کی بناء پر بہت سارے ایسے جرائم جنم لیتے ہیں جن سے معاشرے کی بنیادیں مزید کھوکھلی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ جبکہ صنفی مساوات سے ہٹ کر انسانی رویوں کا زہریلا پن معاشرے کو ایک ایسا رویہ وراثت میں دیتا ہے جس کے بعد نجی اداروں سے لے کر سرکاری دفاتر تک کرپشن، لوٹ مار اور اقربا پروری کے سوا کسی قسم کی کوئی بازگشت سنائی نہیں دیتی اور یہ وہی معاشرے قرار پاتے ہیں جہاں اولاد، ماں باپ کو رسوا کرتی ہے، جہاں بیٹا ماں اور باپ کو قتل کرنے لگتا ہے، باپ بیٹے اور ماں کو قتل کرنے لگتا ہے، جہاں بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں لاوارث بنا کر کوڑادانوں میں پھینک دیا جاتا ہے، جہاں کوئی کسی کی عزت نہیں کرتا اور یہ وہی معاشرہ بن جاتا ہے جہاں خواب دیکھنے والوں کی قلت ہو جاتی ہے اور جب خواب نہیں دیکھے جاتے تو پھر انسانی ذہن ایسے امراض کی مختلف اشکال کا شکار ہو جاتا ہے جہاں انسان زندگی کو بے مقصد تصور کرتے ہوئے ایک کوہلو کے بیل کی طرح سرگرداں رہتا ہے اور پھر ایسے معاشروں میں گھومنے پھرنے والا ہجوم زندہ لاشوں کے سوا کچھ اوردکھائی نہیں دیتا ۔ نتیجتاً ایسا معاشرہ اپنی ہر طرح کی صلاحیت کھو کر مفلوج ہو جاتا ہے اور اس کا یہ اپاہج پن معاشرے میں ترقی کے زینوں کو بھی ناپید کرتے ہوئے ان کے آگے ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے کہ جو جس مقام پر پہنچتا ہے وہ اس ان چاہے اور ان دیکھے خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ اگر اس نے ادھر ادھر ذرا سا کسی کو موقع دیا تو وہ اپنا مقام کھو دے گا اور پھر یہ وہی معاشرہ بنتا ہے جہاں استاد کی کرسی پر بیٹھے لوگ استاد نہیں ہوتے، جہاں جو جس مقام پر بیٹھا ہے وہ درحقیقت وہ نہیں ہوتا اور اس طرح سے پورا معاشرہ ایک ایسی صورت حال اختیار کر جاتا ہے کہ اس معاشرے میں ایسے ایسے جرائم رونما ہوتے ہیں کہ بالاخر یہ معاشرہ بے حسی کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کے بعد جرم کو جرم کرنے والے کی بھی کوئی نہیں سنتا ۔
ہفتہ رفتہ کے دوران فیصل آباد میں اس قسم کا ایک دلخراش واقعہ پھر سے سامنے آیا جس نے انسانیت کو جھنجھوڑا تو ضرور مگر اس کے جھنجھوڑنے کے باوجود انسان سیکھ نہیں پاتے!۔ ہم روزانہ سنتے ہیں کہ سسرال میں جھگڑوں، خاوند کا تشدد، بدتہذیب بیوی کی حرکات و سکنات، جہیز کے طعنوں پر کئی قسم کے جرائم جنم لیتے ہیں۔ کبھی خودکشیاں کی جاتی ہیں، کبھی اس صورت میں نئے معاشقے جنم لیتے ہیں اور معاملہ قتل و غارت تک پہنچ جاتا ہے۔ خودکشیاں بھی ایسے ایسے خوفناک انداز میں کی جاتی ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آتاکہ انسان اپنے رویوں سے کیسے اور کن جرائم کی بیج بو رہا ہے۔ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے سٹی تھانے کی حدود میں آئے روز کے گھریلو جھگڑے جہیز نہ لانے کے تانوں اور بیٹیوں کی پیدائش پر دلبرداشتہ ماں نے 2کمسن بیٹیوں سمیت زہر پی کر اپنی اور بیٹیوں کی جان کا خاتمہ کر لیا۔ یہ خبر پورے ضلع میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور محلہ رشید آباد کی فضا سوگوار ہو گئی۔ اس واقعہ کی تفصیلات کے مطابق رشید پارک جڑانوالہ کے رہائشی فرحان کی شادی چند سال قبل اپنی کزن رحیمہ کیساتھ ہوئی تھی جو اوکاڑہ کے نواحی گائوں کی رہائشی ہے ‘ میاں بیوی کے درمیان اکثر جھگڑا رہتا تھا جس سے دلبرداشتہ ہو کر رحیمہ نے اپنی تین سالہ بیٹی رمشا اور ایک سالہ بیٹی حرم فاطمہ کو زہردے کر خود بھی پی لیا جس کے نتیجہ میں ماں اور دونوں بیٹیاں دم توڑ گئیں‘پولیس نے موقع پر پہنچ کر کارروائی شروع کر دی اور تینوں نعشوں کو پوسٹمارٹم کے بعد اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ واقعہ چیخ چیخ کر بیان کرتا ہے کہ ہمارے رویے کس طرح کے جرائم کو جنم دے رہے ہیں کہ ایک ماں اپنی ان بیٹیوں جن کو وہ خراش آتی نہیں دیکھ سکتی تھی ان کے ساتھ اجتماعی خودکشی کر رہی ہے۔ خودکشی کو ہمارے مذہب میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے آئین اور قانون کے مطابق بھی خودکشی ایک قبیح جرم ہے لیکن ایسی اجتماعی خودکشیاں معاشرے سے بیزاری اور وہ بغاوت ہے جو جہالت پر مبنی رویوں کی صورت میں نسل در نسل آگے منتقل ہو رہی ہیں اور اس کا سدباب کرنے کے لئے کسی سطح پر کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ فیصل آباد میں گزشتہ روزایک اوربڑادلخراش واقعہ پیش آیا۔ پولیس کے مطابق علی گارڈن میں آٹھ سالہ مدرسے کا طالب علم رمضان قتل ہوا۔پولیس نے اس قتل کی تحقیقات شروع کیں تو یہ بات سامنے آئی کہ آٹھ سالہ طالب علم رمضان کو اس کے 16سالہ ساتھی رضوان نے زیادتی کے بعد گلے میں رسی ڈال کر بے ہوش کیا اور مدرسے کی دوسری منزل پر لے جا کر گلی میں پھینک دیا۔ پولیس کے مطابق ملزم رضوان نے آٹھ ماہ قبل مدرسے کے ایک طالب علم نورآغا سے زیادتی اور قتل کا بھی اعتراف کیا ہے۔ ہمارے مدارس میں اس قسم کے جرائم ہونے کے باوجود اس بارے میں بات تک سننا گوارا نہیں کی جاتی حالانکہ اس قسم کے جرائم کے خاتمے کے لئے اگر بروقت کردار ادا کیا جاتا تو شاید ایک سولہ سالہ طالب علم دو بچوں کا قاتل نہ بن پاتا ۔ بہرحال ہر وقت میں اصلاح کا پہلو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور اس ضمن میں ذمہ داران کے کردار کی ادائیگی ضروری ہے۔