رائے ونڈ میں اجتماعی دعا میں مقررین نے کہا کہ اگلی زندگی نیک اعمال سے بنتی ہے‘ لیکن دنیا مال بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ چاروں طرف مغربی کلچر نظر آتا ہے۔ ہر شخص کو اپنے اعمالوں کا جواب دینا ہے‘ لیکن ہماری دنیا بداعمالیوں کا مجموعہ بنی ہوئی ہے۔‘‘ رائے ونڈ میں ہر سال تبلیغی اجتماع ہوتا ہے۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی دنیا کی کتاب میں ایک نقطہ سے زیادہ نہیں ہے۔ ساٹھ ستر یا اسی سال کی عمر میں بالآخر انسان مر جاتا ہے۔ اصل زندگی وہ ہے جو اس مختصر ترین زندگی کے عمل کا نتیجہ ہے مگر رائے ونڈ تبلیغی اجتماع ہو یا خانہ کعبہ میں ادا کیا جانیوالا عمرہ اور حج ہو۔ نماز ہو یا روزہ‘ اگر نیت میں ہی کھوٹ ہے تو ظاہری عبادات سے کچھ فائدہ نہیں۔ ہمارے بچپن میں لوگ جب عمرہ یا حج کرنے جاتے تھے تو یہ بہت بڑی سعادت سمجھی جاتی تھی اور جو لوگ عمرہ یا حج کرکے آتے تھے‘ انکے چہروں پر نور اور کردار میں پاکیزگی ہوتی تھی کیونکہ لوگ اپنے حق حلال کی روزی سے یہ فریضہ ادا کرتے تھے۔ انہیں دل کی شدتوں سے طلب ہوتی تھی۔ انکی نیتوں میں پاکیزگی ہوتی تھی اس لئے جب لوگ پلٹتے تھے تو انکے کردار میں تبدیلی دکھائی دیتی تھی۔ آج پاکستان میں ہر تیسرا آدمی عمرہ اور حج کرکے آتا ہے۔ بعض لوگ تو سال میں دو تین عمرے بھی کر آتے ہیں اور زندگی میں ایک کی جگہ چار چار چھ چھ حج کر لیتے ہیں‘ لیکن اکثریت کے چہروں پر نہ نور ہوتا نہ ان کے کردار صالح ہوتے اور نہ ان میں طہارت آتی کیونکہ اس میں نیت کا فتور زیادہ ہو گیا ہے۔ لوگ خدا کو راضی کرنے سے زیادہ اسے سٹیٹس سمبل بنا چکے ہیں۔ سادہ اور مختصر قیام پر مبنی عمرہ بھی ڈیڑھ لاکھ میں ہوتا ہے جبکہ حج میں تقریباً تین گنا رقم لگتی ہے۔ اس مہنگائی اور بیروزگاری میں متوسط طبقے کا آدمی بھی بڑی مشکل سے حج کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے‘ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگ سال میں دو عمرے اور ایک اور حج کر آتے ہیں اور پوری فیملی ممبرز کے ساتھ کرکے آتے ہیں‘ لیکن اکثر ایسے لوگوں سے انکے دوست احباب‘ پڑوسی اور کولیگز نالاں رہتے ہیں۔ انکی عادات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حج جیسا عظیم فریضہ حق حلال کی کمائی سے ادا ہوگا تو اسکی فیوض و برکات بھی ہونگی۔ رشوت اور حرام کی کمائی سے خواہ زکوٰۃ ادا کی جائے یا عمرہ حج کیا جائے‘ اس سے کردار و عمل پر کیا اثر ہوگا۔ جس طرح ہمارے ہاں بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے چیرٹی کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے‘ اسی طرح لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حرام کی کمائی ہے تو کیا ہوا۔ عمرہ یا حج کرنے سے سارے گناہ دُھل جائینگے۔ اگر وہ اتنے ہی اللہ والے‘ نیکوکار اور نیک نیت ہوں تو عمرہ یا حج کرنے کے بعد انکے کردار میں بناوٹ‘ ریاکاری‘ سازش‘ منافقت‘ طمع‘ حسد اور انتقامی کارروائیاں نہ ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہبی فرائض کو بھی منفعت بخش کاروبار بنا لیاگیا ہے جس کے بدترین نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ہمارا معاشرہ جتنی ابتری اور اخلاقی گراوٹوں کا شکار ہے‘ اس کی بنیادی وجہ ریاکاری ہے۔ اس سے زیادہ شرمناک حقیقت کیا ہوگی کہ پاکستان میں ہر روز دو سے دس سال تک کی نابالغ اور معصوم بچیوں سے زیادتی کے بعد انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ اسکی شرح سب سے زیادہ پنجاب میں ہے۔ اسکے بعد سندھ اور بلوچستان آتا ہے۔ یہ بے رحم‘ بھیانک اور بہیمانہ تعداد 1800 سالانہ ہے۔ ڈاکٹروں کے ہاتھوں غیرطبعی اموات کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ اگر اسکے صحیح اعدادوشمار دیدیئے جائیں تو لوگ پاکستانی ڈاکٹروں سے علاج کرانا بند کر دیں۔ خوراک میں ملاوٹ کا یہ حال ہے کہ تین دن قبل ہزاروں من برادہ‘ گھٹیا فوڈ کلر میں مرچیں‘ دھنیا‘ ہلدی چائے کی پتی وغیرہ پکڑی گئی ہے۔ اندازہ کریں کہ برادے‘ گھٹیا فوڈ کلر‘ کیمیکلز اور دودھ میں غلیط پانی کے علاوہ کافور اور کیمیائی اجزاء سے لوگوں میں کینسر‘ ہیپاٹائٹس‘ خناق‘ جلدی امراض اور انتڑیوں کی بیماریاںشدت سے پھیل رہی ہیں۔ برائلر مرغیوں کی وجہ سے نوجوان لڑکے لڑکیاں بانجھ ہو رہی ہیں۔ انکے ہارمونز میں خرابیاں عمل میں آرہی ہیں۔ پورا پاکستان کرپشن میں جکڑا ہوا ہے۔ ہر سال پاکستان میں عمرہ کرنیوالوں کی تعداد ای کروڑ سالانہ ہے جبکہ ہر سال لاکھوں افراد حج کرکے آتے ہیں‘ لیکن پاکستان میں اخلاقیات کا جنازہ نکلا ہوا ہے۔ تیس سالوں میں پاکستان میں اخلاقی انحطاط اتنا برپا ہوا ہے کہ ہم انسانی سطح سے گر گئے ہیں۔ کرائم کی سطح اتنی بلند ہو گئی ہے کہ آدمی آدمی سے ڈرنے لگا ہے۔ اگر کردار میں نیکی اور آخرت کا خوف ہو اور عمرہ‘ حج اس غرض سے نہ کیا جاتا ہو کہ لوگوں میں دھاک بیٹھے گی۔ اسے سٹیٹس سمبل نہ بنایا جائے۔ حلال کی رقم سے یہ فریضہ ادا کیا جائے تو انسانی کرداروں میں انسانیت رونما ہو۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو دیکھ لیں۔ جونہی کوئی افتاد پڑتی ہے یا کوئی ڈیل کرنی ہوتی ہے تو ان کو عمرے یاد آجاتے ہیں‘ لیکن اب سعودی فرمانروا بھی سیانے ہو گئے ہیں اور پاکستانی حکمرانوں‘ سیاستدانوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ انہوں نے بھی اپنا قبلہ بدل لیا ہے۔ کل تک پاکستان ان کیلئے سب کچھ تھا‘ لیکن اب امریکہ ان کا سب کچھ بن چکا ہے۔ غور کریں کہ جب حالات نارمل ہوتے ہیں تب حکمرانوں کو عمرہ یاد نہیں آتا۔ عمرہ صرف مشکل وقت میں یاد آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمرہ ہی کیوں کرتے ہیں۔ حج کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ اس میں زیادہ مشقت ہوتی ہے اور پروٹوکول بھی نہیں ملتا۔ ایک ایسا ملک جو قرضوں میں بال بال جکڑا ہوا ہے‘ اسکے حکمرانوں کے شاہی عمرے ختم نہیں ہوتے۔ ہر سال آٹھ ماہ اجلاس مری میں ہوتے ہیں۔ کبھی دبئی میں میٹنگز چلتی ہیں اور اب 2017ء میں کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرا جب پاکستان سے ہر ہفتے حکمران اور ان کا پورا ٹولہ اور خاندان قومی خزانوں کو ٹیکے لگا کر لندن یاترا کرنے نہ جا رہا ہو۔ ساری مشینری اس منحوس پانامہ پر لگی ہوئی ہے۔ میڈیا بھی اسی کام پر لگا ہوا ہے اور اپوزیشن بھی کسی دوسرے ایشو پر بات نہیں کررہی۔ کتنے شرم اور نااہلی کی بات ہے کہ پانامہ جیسے گھنائونے کام اور اقامہ جیسے غیرقانونی کام پر جب ادارے لگے ہوئے ہیں‘ ملک میں بائیس کروڑ عوام کاکوئی پرسان حال نہیں۔ عدالتیں غور کریں کہ اس سارے عرصے میں حکومت نے عوامی بہبود کا کیا کام کیا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں روزگار نام کی کوئی چیز نہیںہے۔ جہاں کرپشن کا راج ہے۔ جہاں انڈسٹریاں بند پڑی ہیں۔ لوڈشیڈنگ ہے‘ ٹماٹر دو سو روپے کلو‘ پیاز ڈیڑھ سو روپے کلو‘ مٹر سو روپے کلو ہے۔ یہ وہ سبزیاں ہیں جو پانچ دس روپے کلو کی بکتی تھیں۔ آج 20 کلو آٹے کا تھیلا 50 روپے مزید مہنگا کر دیا گا ہے۔ دودھ سو روپے کلو ہے اور اچھا دودھ ڈیڑھ سو روپے کلو ہے۔ اب جس آدمی کی پندرہ ہزار روپے تنخواہ ہے‘ وہ کیا بچوں کو دھول‘ مٹی کھلائے گا۔ اگر چٹنی روٹی کھلا دے گا تو کیا تن سے ننگا رکھے گا اور تعلیم دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کبھی شریف فیملی‘ ان کے حواریوں اور دیگر سیاستدانوں کو دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا چاہئے۔ اپنا ضمیر ٹٹولنا چاہئے کہ آخر پاکستان کو کتنا اور کب تک لوٹیں گے۔ اب پاکستانی عوام کو اللہ سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگنی چاہئے کہ یا اللہ حکمرانوں اور سیاستدانوںسے ہمیشہ کیلئے نجات دلا ورنہ ہمارا کچھ نہیں بچنا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024