سعودی عرب میں گرفتار ہونے والے تین شہزادے اس لئے بہت اہم ہیں کہ وہ سعودی عرب کے تین مرکزی ٹی وی نیٹ ورکس کے مالک ہیں۔ ان میں شہزادہ ولید کئی عالمی اور علاقائی ٹی وی چینلوں کے مالک ہیں جو عرب دنیا میں نشریات فراہم کرتے ہیں۔ روتانا گروپ بھی ان کی ملکیت ہے جو عرب دنیا کی سب سے بڑی تفریح فراہم کرنے والی کمپنی ہے۔ اس گروپ میں روتانا میگزین، روتانا ٹیلی ویژن‘ سات میوزک روتانا ریڈیو، یکم فروری 2015 کو اجراء ہونیوالا العرب نیوزچینل شہزادہ ولید اَل براہیم ایم بی سی اور صالح کامل اے آرٹی کے مالک ہیں۔
ہفتے کی صبح احتساب کا ادارہ نہ صرف پیدا ہوگیا بلکہ ولی عہد شہزادہ محمد کی قیادت میں اس نے پوری قوت سے کارروائی کرکے کھرب پتی الولید بن طلال، وزیرمعاشیات سمیت گیارہ شہزادے گرفتارکرلئے۔ درجن بھر وزرا بھی دھرلئے گئے۔ ان میں چارموجودہ اور دیگر سابق وزرا ہیں۔
سعودی نیشنل گارڈ کے سربراہ شہزادہ متعب الثانی بن عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود بھی اس فہرست میں نمایاں ہیں۔ یہ سابق شاہ عبداللہ مرحوم کے 34 بچوں میں سے ایک اور تیسرے فرزند ہیں۔ ان کی والدہ کا نام منیرہ العطیشاں ہے۔ متعب کو اعلی ترین سکیورٹی فورس کا درجہ رکھنے والی نیشنل گارڈز کے وزیر کے طورپر 27مئی 2013 کو مقرر کیاگیا تھا۔ان کے ہٹنے سے سعودی سکیورٹی اداروں پر شہزادہ محمد بن سلمان کی گرفت اور مضبوط ہوجائے گی۔ بحریہ کے سربراہ ایڈمرل عبداللہ السلطان بھی بدعنوانی کے خلاف اس کاروائی کی لپیٹ میں آئے ہیں۔
سعودی حکومت کی جانب سے سرکاری اعلان میں اس کاروائی کا مقصد عوامی سرمایہ کاتحفظ اور عہدوں کے ناجائز استعمال سے بدعنوانی کرنے والوں کو سزا دینا بتایاگیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے جدہ میں نجی جہاز گرائونڈ کردئیے ہیں۔ باالفاظ دیگر گرفتار شہزادے اڑان بھرنے سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ پوری طرح سے ’قفس‘ میں ہیں۔
ولید بن طلال کی گرفتاری سے کاروباری حلقوں میں بھونچال آگیا ہے۔ مغربی میڈیا نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالیاہے۔ عرب بادشاہتوں اور خلیج پر تحقیق کرنے والے رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹی ٹیوٹ فار پبلک پالیسی سے وابستہ ڈاکٹر کرسچئین کوایٹس الرچسن کا تجزیہ ہے کہ جدید سعودی تاریخ میں اس بڑے پیمانے پر ہونے والی کاروائی کی مثال نہیں ملتی۔ اگر ولید بن طلال کی گرفتاری کی خبر درست ہے تو اس سے مقامی اور بین الاقوامی کاروباری برادری میں بھونچال پیدا ہوگا۔
گرفتاری کی اطلاعات پر ولید بن طلال کی پچانوے فیصد ملکیت کنگڈم ہولڈنگ کے حصص میں نواعشاریہ نو فیصد کمی ہوگئی۔ 2017ء کے آغاز سے اب تک کنگڈم ہولڈنگ اپنی پندرہ فیصد مارکیٹ ویلیو پہلے ہی کھوچکی ہے۔حالانکہ اس تازہ جھٹکے سے قبل اتوار کو ہی کمپنی کی جانب سے یہ اعلان ہوا تھا کہ تیسری سہ ماہی اورسال کے اولین نومہینوں میں اس کے منافع میں اضافہ ہوا ہے۔ سعودی تدول آل شیئرز انڈکس (ٹی اے ایس آئی)کے حصص میں بھی چند لمحوں میں ایک اعشاریہ چھ فیصد کمی آئی۔ یہ عرب دنیا کا سب سے بڑا سٹاک ایکسچینج تصور ہوتا ہے۔سعودی عرب کا عالمی سطح پر بہترین کاروباری سمجھا جانے والا شہزادہ ولید سٹی گروپ اور ٹویٹرجیسی فرموں میں بھی سرمایہ کاری رکھتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں کہ ولید بن طلال کی سرمایہ کاری کن کمپنیوں میں تھی۔ یورو ڈزنی تھیم پارک، امریکی ایپل کمپنی ، روپرٹ مرڈوک کی نیوزکارپوریشن، ہالی وْڈ فلمیں بنانے والی عالمی کمپنی ٹوئنٹی فرسٹ سینچری فاکس، جیسی بڑی عالمی کمپنیاں اس میں شامل ہیں۔ کنگڈم ہولڈنگ سعودی عرب کی اہم ترین سرمایہ کارکمپنی تصور ہوتی ہے۔ اس کمپنی کے ذریعے ہی سعودی عرب کے اندر اور باہر بنکوں میں کلیدی حصصں کا نظم ونسق بھی چلایا جاتا ہے۔ میڈیا، زراعت میں سرمایہ کاری اس کے علاوہ ہے۔
ولید بن طلال نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پلازہ ہوٹل میں بھی سرمایہ کاری کی۔ اْن سے ایک بیش قیمت کشتی بھی خریدی تھی۔مغربی میڈیا میں یہ کہانی گردش میں ہے کہ 1991سے 1995 کے دوران یہ ولید بن طلال ہی تھے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد کو آئے جب وہ رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں شدید دبائو کا سامنا کررہے تھے۔ ولید بن طلال نے 2015 میں اپنی تمام دولت ایک بہتر، متحمل، مساوات پر مبنی اور برداشت والی دنیا کی تعمیر کے لئے وقف کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سعودی عرب میں احتساب کا یہ جھاڑو ایسے موقع پر پھیرا گیا ہے جب محض دو ہفتے قبل ہی ولی عہد محمد بن سلمان نے بڑے عالمی سرمایہ کاروں کو ریاض میں منعقدہ کاروباری سمٹ میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور پیشکش کی کہ وہ تیل کے دور کے بعد ہونے والی اقتصادی اصلاحات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا سرمایہ سعودی عرب میں لگائیں۔
گرفتار ہونے والوں میں سابق وزیر خزانہ ابراہیم الآصف، سعودی بن لادن کنسٹرکشن گروپ کے چئیرمین بکر بن لادن اور ایم بی سی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے مالک الولید اَلابراہیم بھی شامل ہیں۔ بعض گرفتار ہونے والوں کو ریاض کے سفارتی علاقہ میں رِٹز کارلٹن ہوٹل میں نظر بند کیاگیا ہے۔
قبل ازیں گزشتہ ماہ ستمبر میں بااثر علماء اور سرگرم کارکنوں کی گرفتاریوں کی ایک ایسی ہی لہر اٹھی تھی جس پر علاقائی یا عالمی میڈیا نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی
محمد بن سلمان پہلے ہی تمام اہم ریاستی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے چکے ہیں۔ معیشت سے لے کر دفاع اور خارجہ پالیسی تک ان کے زیرنگیں ہے۔ کہاجارہاہے کہ باضابطہ اختیار تفویض ہونے سے قبل ہی محمد بن سلمان نے شاہ کے اختیارات استعمال کرنے شروع کردئیے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لندن کے ایک معروف اخبار میں شاہی خاندان میں محمد بن سلمان کے شاہ کے اختیارات استعمال کرنے پر شدید ردعمل کی ایک کہانی شائع ہوئی تھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس کاروائی سے قبل زیرزمین منصوبہ بندی عرصہ سے جاری تھی۔
محمد بن سلمان خود کو جدیدیت کے علمبردار کے طورپر پیش کررہے ہیں۔ وہ سعودی عرب کی قدامت پسندی اور اس کے بدوی معاشرے کو جدیدیت اور جدید اسلام کا نیا لبادہ دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ خواتین کو آئندہ جون 2018سے ڈرائیونگ کی اجازت اس طرف پیش رفت کا اہم اشارہ قرار دیاجارہا ہے۔ امریکی صدر، اسرائیل اور مغربی دنیا میں اس کا چرچا ہے۔ کچھ چھپی اور اب ظاہرہوتی حقیقتیں آنے والے دنوں کا پیام دے رہی ہیں۔
دوسری جانب مغربی سفارتکار اس پیش رفت کو سعودی تخت پر محمد بن سلمان کی تاج پوشی کی جانب اہم قدم کے طورپر لے رہے ہیں۔ پیشگوئی کی جارہی ہے کہ آئندہ نصف صدی اس نوجوان شہزادے نے سعودی مملکت کو کنٹرول کرنا ہے۔
ان کاروائیوں کا اجازت نامہ، شاہی فرمان پیش ہے کہ ’’کرپشن کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا نہ گیا اور بدعنوان کٹہرے میں نہ لائے گئے تو مادر وطن کی بقا ناممکن ہے۔‘‘ سعودی وزارت خزانہ نے مزید مہر لگائی کہ ’’انسداد بدعنوانی کمیٹی کا قیام اور ممتاز شخصیات کی گرفتاری سے قانون کی حکمرانی میں اعتماد بڑھا ہے۔‘‘
سعودی امور کے ماہر جیمز ڈورسی کے مطابق حالیہ گرفتاریوں سے حکمران خاندان کی اتفاق رائے کی برس ہا برس قدیم روایت ٹوٹ گئی ہے۔ محمد بن سلمان اتحاد بنانے کے لئے حکمران خاندان، فوج اور نیشنل گارڈ پر اپنی گرفت مضبوط بنارہے ہیں۔