بھارت کو آخرکب سمجھ آئیگی
2016 مقبوضہ کشمیر میں ہنگاموں، عوامی مظاہروںاور کرفیو کی پابندیوںکا سال ثابت ہوااور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پربھارت کوبین الاقوامی سطح پربھی خفّت برداشت کرنا پڑی اور اندرونی طور پر بھی اسے شدیدتنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتِ حال میںبھارت نے سابق بھارتی وزیرِ خارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں پانچ رکنی وفد کو مقبوضہ جموں و کشمیر بھیجا جسکا مقصد 8جولائی 2016کو بھارتی افواج کے ہاتھوںنوجوان کشمیری رہنما برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف شدت کیساتھ اٹھنے والی عوامی تحریک اور وادی میں امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لینا اور امن و امان کی مستقل بحالی کیلئے سفارشات مرتب کرنا تھا۔ اس وفدنے 2016 کے ہنگاموں کے دوران دومرتبہ مقبوضہ جموں وکشمیر کا دورہ کیا اور زندگی کے مختلف طبقوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اورکشمیر کے مسئلے اوراسکے حل کے بارے میں انکی ر ائے دریافت کی۔ اس وفد نے7جنوری 2017کو ان دوروں کی تفصیلی رپورٹ جاری کر دی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق کشمیری عوام کو یقینِ واثق ہو چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز مقامی سیاسی پارٹیاں کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش نہیں کرسکتیں۔ مزید برآں بھارتی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر اس نے کشمیر کے بارے میں زمینی حقائق کا ادراک نہ کیا تو 2017اور2018کے دوران اسے مقبوضہ کشمیر میں موجودہ حالات سے کہیں زیادہ بد امنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارتی پولیس اور افواج پر کشمیری نوجوانوں کے پتھراؤ اور گلی کوچوں میں احتجاج کے سلسلوں میں آنیوالا وقفہ مستقل امن نہیں بلکہ ایک عارضی کیفیت ہے جو کسی بھی لمحے تبدیل ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ کشمیری عوام سمجھتے ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کی حساسیت کے سلسلے میں عدم آگاہی کے بحران کا شکار ہے۔ کشمیری عوام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بھارت اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جسکے فوری سیاسی حل کی اشد ضرورت ہے۔اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ وفد کے ارکان جس کشمیری سے بھی ملے اس نے انہیں بتایا کہ کشمیر کے مسئلے کا پائیدار اور مستقل حل تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے اور بصورتِ دیگر وادی میں اموات اور تباہی کا سلسلہ زیادہ شدت کیساتھ جاری رہیگا۔ کشمیریوں کا بھارتی حکومت پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور اس عدم اعتماد میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ کشمیریوں کیساتھ روا رکھے جانیوالے امتیازی سلوک نے بھی معاشرے میں با شعور اور فہم و فراست کے حامل ذہنوں کو تبدیل کردیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کشمیری عوام نے بھارتی حکومت کے کشمیر کی حریت تحریک اور بڑی تعداد میں کشمیری نوجوانوں کی بھارت مخالف احتجاجی مظاہروںمیں شرکت کے متعلق اس منفی تاثر کو بھی سختی سے رد کردیا کہ انہیں اپنی تحریک اور احتجاج کیلئے بیرونی امداد مل رہی ہے یا یہ کہ کشمیری نوجوان روپے پیسے کے لالچ میں سڑکوں پر آکر بھارت کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کررہے ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی مزید بتایا گیا ہے کہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کے بارے میں بھی عجیب قسم کے خدشات اور وسوسوں کا شکار ہیں کہ اپریل 2017 کے بعد جو کچھ ہونیوالا ہے وہ بہت شدید تباہی لانیوالا ہو گا۔ 2008اور 2010میں (مقبوضہ کشمیر میں)جو کچھ ہوا وہ معتدل نوعیت کا تھا، 2016کے واقعات کچھ شدت کے تھے اور اگربھارت نے درست اقدامات نہ کئے تو آنیوالے سالوں 2017اور2018 میں جو کچھ ہو گا وہ بہت شدیداور تباہی لانیوالا ہوگا۔
مقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا کہ جہاں تک بھارت نواز مقامی سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے تو وہ خالصتاً مفاد پرستی کے ایجنڈے پر کار فرما ہیں اور ان کا عام کشمیری معاشرے اور عوامی جذبات سے کوئی تعلق نہیں۔ کشمیریوں کواس بات کا بھی یقین ہے کہ مقامی سیاست دان کشمیر کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔کشمیریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پیچیدہ مسئلہ کا حل تمام فریق یعنی پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کو مل کر تلاش کرنا ہوگا۔ انہیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ جب تک یہ تینوں فریق ملکر اس مسئلے کو حل نہ کریں یہ حل نہیں ہوگا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگربھارت اس مسئلے کا صرف ایک عارضی حل چاہتا ہے تو اسے و ادی میں نافذ دو قوانین Armed Forces Special Powers Act(AFSPA) اور Public Safety Act (PSA) کو منسوخ کرنا ہوگا۔اس سے یقیناً کشمیریوں کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد ملے گی لیکن کشمیریوں کا کہنا ہے کہ یہ قدم اٹھانے کے بعدیہ سوچنے کی غلطی نہیں کرنا چاہیے کہ یہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل ثابت ہو سکتا ہے۔
وادی کے حالات کو بہتری کی جانب لانے کیلئے فوری نوعیت کے تین اقدامات کی بھی سفارش کی گئی ہے مثلاً(1)انسانی حقوق کی صورتِ حال کو بہتر کیا جائے، (2)کشمیری رہنماؤں اور بھارت ؛اورپاکستان اور بھارت کے درمیان اس مسئلے کے حل کیلئے جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے اور(3)کشمیر اور بھارت کی سول سوسائٹی کے درمیان بھی باضابطہ روابط کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
مقبوضہ کشمیر اور کشمیریوں کے جذبات سے متعلق یہ تمام حقائق خود بھارت ہی کے ایک سابق وزیر نے پیش کئے ہیں جن پر سنجیدگی کیساتھ غوروفکر کرنا اور خلوصِ نیّت کیساتھ اس مسئلے کے حل کی کوشش کرنا خود بھارت کے اپنے مفاد میں ہے۔ اس رپورٹ میں پیش کردہ حقائق کو ، خواہ وہ بھارت کو کتنے ہی ناگوارکیوں نہ گزریں، تسلیم کرنے کے سوا بھارت کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ بھارت کا ہر باشعور فرد کشمیر کی حساسیت سے آگاہ ہے اور وقتاً فوقتاً بھارت کو اس کا احساس بھی دلاتا رہتا ہے لیکن بھارت کو آخر کب سمجھ میں آئیگا کہ عوام کی خواہشات کے برعکس ان پر حکمرانی کا خواب دیکھنا اس جمہوریت اور انسانی حقوق کی نفی تو ہے ہی جسکا وہ ہمہ وقت پرچار کرتا رہتا ہے، یہ خطے کے امن کیلئے بھی تباہی و بربادی کا سفر ہے جسے اب نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ کشمیری عوام کے جذبات سے آگاہ ہو جانے کے بعد بھی مقبوضہ جموں و کشمیرکے بارے میں اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنا آخر کہاں کی دانشمندی ہے؟