حقانی نیٹ ورک میں اختلافات، مشرقی افغانستان میں مقبولیت کھو رہا ہے: نیویارک ٹائمز
نیویارک (آئی این پی) ایک امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور اس کے گھر میں ہی اس پر عدم اعتماد کی سرگوشیاں ہونے لگی ہیں، حقانی نیٹ ورک کے بعض مقامی اور سابق کمانڈرز کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی جنگ جہاد نہیں بلکہ وہ روپے اور ڈالر کی جنگ لڑ رہا ہے، حقانی ہیرو نہیں دہشت گرد ہے۔ بدھ کو اپنی رپورٹ میں نیو یارک ٹائمز نے کہا کہ دہشت کی علامت حقانی نیٹ ورک اپنے تاریخی گڑھ مشرقی افغانستان سمیت دیگر علاقوں اور گروپوں میں اپنی مقبولیت کھو رہا ہے اور اس کے خلاف مقامی کمانڈرز میں منافرت پھیل رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حقانی کی جنگ صرف پاکستانی پیسے اور اقتدار کے لیے ہے اور وہ اسے اندھا دھند طریقے سے اس کی پیروی نہیں کر سکتے۔ جلال الدین کے بیٹے سراج الدین جو اس وقت حقانی نیٹ ورک کی سربراہی کر رہے ہیں وہ افغانستان کے ساتھ پاکستان سرحدی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور بعض مقامات پر اس کی حمایت منافرت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ سابق کمانڈر فیصل رحیم نے کہا ہے کہ قبائل اب سمجھ گئے ہیں کہ حقانی کس کے لیے کام کرتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق خوست اور پکتیکاکے بہت لوگ پاکستان کو دشمن بھی سمجھتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی حمایت پاکستانی فورسز کر رہی ہیں۔ زدران ٹرائیبل کونسل کے خزانچی محمد علی زدران نے کہا کہ حقانی سکولوں، کلینکس، سڑکوں اور دیگر بنیادی خدمات کی اجازت نہیں دے رہے تو پھر کیوں لوگ ان کی حمایت کریں۔ ہم اور نئی نسل ان کی مزید اندھا دھند حمایت نہیں کریں گے۔ حقانی اس وجہ سے ہیرو بنا کہ اس نے کمیونسٹوں کو شکست دی اور ہم جانتے ہیں کہ اس کو ماضی میں کس نے ہیرو بنایا اور اب دہشت گرد بنایا۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈرحنیف شاہ کا کہنا ہے کہ سراج الدین حقانی نہ تو کوئی عالم ہے اور نہ ہی قبائلی رہنما ہے ہم صرف اس کے والد کی وجہ سے اس کا احترام کرتے ہیں۔ حقانی کے آبائی علاقے کے باشندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وسیع وسائل، فوج اور جدید آلات رکھنے والا امریکہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسے گروپوں کو کیوں شکست نہیں دے سکا۔ ہمیں لگتا ہے کہ جلد ہی حقانی اور امریکہ آپس میں ہاتھ ملا لیں گے اور ایک ہو جائیں گے۔