تاجِ کسریٰ کا تسلط فارس ، خراسان ،آزربائیجان عراق عرب ،عراق عجم ،خورستان اورحجر تک پھیلا ہواتھا اوردولتِ روماکی مشرقی سلطنت قسطنطنیہ سے لے کر شام فلسطین اورمصر پر مشتمل تھی دونوں سلطنتیں اپنے نقطہ عروج سے گزر کر روبزوال تھیں ۔کسریٰ کے درباریوں میں تختِ کسریٰ کی وراثت کی کشمکش اپنی پوری تبارکاریوں کے ساتھ نازک صورت اختیار کررہی تھی۔داخلی گروہ بندیوں اورمحلاتی سازشوں نے خلفشار کی کیفیت پیدا کردی تھی۔سلطنتِ رومہ میں بھی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہ تھی ہر قل نے قیصرِ روم فوکاس کو قتل کرکے خود تاج وتخت پر قبضہ کرلیا تھا اسکے ساتھ ہی قیصر وکسریٰ میں توسیع سلطنت کیلئے باہمی جنگ چھڑگئی تھی۔
ایران نے روم پر حملہ کرکے مصرِ وشام اس سے چھین لیا تھا پھر ہر قل نے ایران پر فوج کشی کی اوراپنے چھنے ہوئے علاقے واپس لے لئے اس طرح ادھر داخلی خلفشار اورخارجی تصادم کیساریہ اورقیصر یہ کو گھن کی طرح چٹ کررہا تھا اورادھر جزیرہ نمائے عرب میں قرآن کریم کی تعلیمات اوررسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ شخصیت عرب کے منتشر اورمتحارب قبائل کو اخوت ،اتحاد اورنظم وضبط کی کڑیوں میں جکڑ کر ایک نئی قوت کو جنم دے رہی تھیں اورصحرائے عرب کے ریگستانوں سے ایک نئی تہذیب اورنئے نظام حیات کے خوشے پھوٹ رہتے تھے ۔یہی وہ کرشمہ تھا جس نے عہد فاروقی میں قیصر و کسر یٰ کی بے پناہ قوتوں کوصحرانشینوں سے ٹکر اکر ایک وسیع اورترقی پذیر اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔جس آگ کی بھٹی میں قیصروکسریٰ کے تاج وتخت پگھل رہے تھے ۔ اسکی چنگاریوں سے اسلام کی ابھرتی قوت کے دامن کو بچانا اگر ناممکن نہ تھا تو ممکن بھی نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مسلمانوں پر قیامتِ صغریٰ بن کر ٹوٹا تھا۔یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی اپنا تو ازن اورصبر وسکون کھوبیٹھے تھے۔یہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی متوازن اور پر سکون شخصیت ہی کا اعجاز تھا جس نے اس نازک موقعے پر مسلمانوں کو مکمل انتشار میں ڈوبنے سے بچالیا تھا لیکن اسکے باوجود وہ قبائل جو ابھی ابھی حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اورجس کی سرشت میں اسلامی روح اچھی طرح سرایت نہیں پائی تھی مرتد ہوگئے کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اسکے علاوہ کا ذب مدعیان نبوت نے اپنی جھوٹی نبوت کے فتنے کھڑے کردیے تھے۔ان حالات کے اندر اسلام کی نوزائدہ سلطنت کے سامنے صرف دوہی راستے تھے کہ یاتو وہ خاموشی سے بڑھتے ہوئے طوفان سے دبک کر اپنے مستقبل کو تقدیر کے حوالے کردیے یا پھر غیر متزلزل قوتِ ایمان سے سرشار ہوکر پورے وثوق سے آگے بڑھے اورطوفان کی خوفناک لہروں میں کودجائے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چند احتجاجی آوازوں کے باوجود دوسرے طریقہ کار پر عمل کیا۔عہد صدیقی کی لشکر آرایاں ہی دراصل عہد فاروقی کی حیرت انگیز فتوحات کا پیش خیمہ تھیں۔(فتوحاتِ فاروقی)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024