گمراہ عناصر کو قومی دھارے میں لانے کی خواہش
احمد کمال نظامی
ملک کے تیسرے بڑے شہر کی مختلف مذہبی تنظےموںکی طرف سے محرم الحرام کے پہلے عشرہ میں شہر کودہشت گردی کی کسی امکانی کارروائی سے محفوظ رکھنے کیلئے ہرطرح سے مذہبی ہم آہنگی کی کوشش کی جارہی ہیں۔ محرم الحرام میں امن وامان کو یقینی بنانے کے سلسلہ میں بلائے گئے ایک اجلاس میں چند روز پہلے ڈویژنل کمشنر سر دار اکرم جاوید‘ ڈی سی او مسٹر نورالامین مینگل‘ سی پی او(جوقائمقام آر پی او بھی ہیں)ڈاکٹر اشرف حیدر نے ضلعی سیکرٹری مجلس وحدت المسلمین ڈاکٹر سید افتخار نقوی‘ مولانازاہد محمود قاسمی‘ سید حسنین شرازی‘ پیر ابراہیم سیالوی‘ مفتی ضیاءمدنی‘ مولانا ریاض کھرل‘ حافظ امجد ‘ مولانا عزیز الحسن اعوان‘ علامہ حسین عارف ‘ مولانا یوسف انور اور قاری حنیف بھٹی نے مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ عشرہ محرم کے دوران تمام مذہبی تنظیمیں اور ہرمکتبہ فکر کے علمائے کرام فیصل آباد ضلع اور شہر میں متنازعہ مذہبی امور کو موضوع بنانے کے بجائے مسلمانوں کے تمام فرقوں میں باہمی محبت اور یگانگت کی فضا قائم کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ فیصل آبادشہر ملک کے اندر گزشتہ دس برسوں سے ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں سے بالعموم محفوظ رہاہے اور پورے عرصے میں شہر میں صرف ایک بارودی دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے علاوہ شہر میںمساجد اور امام بارگاہوں بالعموم تمام تہواروں میں امن کاگہوارہ رہے ہیں۔ اس مرتبہ انتظامیہ کی طرف سے شہر میں سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کے باوجود شہر کے صنعتی اور کارباری حلقوں میں خوف کی یہ کیفیت موجود ہے کہ امریکی ڈرون حملے میں طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود اور ان کے بعض ساتھیوں کے جاں بحق ہوجانے پرکالعدم تحریک انصاف امریکہ کی اس کارروائی کاغصہ محرم الحرام کی کسی مجلس یاکسی عزاداری جلوس پرخودکش دھماکے کی صورت میں ظاہر نہ کرے۔تحریک طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کیلئے یکسر آمادہ دکھائی دے رہی تھی‘ وفاقی حکومت نے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں کو حکومت کی طرف سے دیگر سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی مشاورت سے قبائلی زعماءکے ذریعے طالبان گروپوں کو ملک میں خودکش دھماکوں کے ذریعے قومی املاک اور قیمتی جانوں کے اتلاف کی راہ ترک کرکے انہیں قومی دھارے میں لانے کی مساعی کاآغاز کررکھاتھا ۔ صوبہ خیبر پی کے کی حکومت مکمل طورپر طالبان سے مذاکرات کی حامی تھی۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق ہمیشہ ہی طالبان اور حکومت کو یہ باور کراتے رہے ہیں کہ وہ ملک کے حقیقی دشمن کو پہچانیں ۔ حکومت خود کو دہشت گردی کی نام نہاد عالمی جنگ سے علیحدہ کرے اور اپنی خارجہ پالیسی کو یہود ونصاریٰ کے زیراثر رکھ کر نہ چلائے اور تحریک طالبان ‘ حکومت کی امریکہ نوازپالیسیوں کی سزا اس ملک کے معصوم اور بے گناہ عوام کو بارودی دھماکوں سے اموات اور جسمانی اعضاءکو ناکارہ بنانے کی صورت میں نہ دے۔تحریک طالبان ‘ ماضی قریب میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کو بھی امن مذاکرات کےلئے ضامن تسلیم کرنے کی بات کرتی رہی ہے۔ وزیراعظم میاںنوازشریف کی سیاسی قابلیت پر کچھ بھی کہاجاسکتاہے لیکن ان کی حب اطوطنی پرانگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ انہوںنے درست کہا ہے کہ وہ خون کو خون سے دھونے کی راہ اختیار نہیں کرسکتے۔ انہوںنے اپنے دورہ امریکہ میں ڈرون حملوں کے معاملہ کو ہر چند اپنا ”ون پوائنٹ ایجنڈا“ نہیں بنایا لیکن ملک کے تمام سیاسی اورمذہبی حلقوں کو تسلیم کرناچاہئے کہ انہوں نے ڈرون حملوں کو رکوانے کیلئے آواز اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی لہٰذا حکیم اللہ محسود کے پیروکاروں کو حکمرانوں پر یہ الزام لگانا زیب نہیں دیتا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کیلئے انہوںنے پانچ کروڑ ڈالر لئے ہیں۔پاکستان نے امریکہ کااتحادی بن کر پاکستان کی معیشت کو ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ نقصان پہنچایاہے ۔عاشورہ محرم الحرام ہو یا عیدین کا موقع ملک میں امن و امان کی بحالی کیلئے برسوں سے خراب حالات کو درست کرنا دنوں میں کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے ملک کوآئی ایم ایف اور امریکہ کے ڈالروں کے بغیر‘ خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن کرنا بھی ضروری ہے ۔ آج ملک میں ہونے والے ڈرون حملوں کی بڑی وجہ امریکہ کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت ہے ۔ امریکہ نے جس طرح اپنے تازہ ڈرون حملے میں طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود کوہدف بنا کر پاکستان میں تحریک طالبان کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کوناکام بنایاہے اس نے اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی ‘ امریکہ پاکستان میں سماجی خلفشار ، اقتصادی یا سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پارلیمنٹ دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کے ذریعے مو¿ثر کارروائی میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے ۔ اس دوران کسی ایک صوبے نے امریکہ پر ڈرون حملوں کی بندش کیلئے امریکی کنٹینروں کو افغانستان میں داخل ہونے سے روک دیاتو اس سے وفاقی حکومت کیلئے نئے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ حکومت کیلئے امن و امان کی بحالی اس لئے بھی لازم ہے کہ پاکستان کومعاشی اورسیاسی طورپرمستحکم کرناہے ۔ اس کیلئے سیاسی قیادت کو وزیراعظم میاں نوازشریف کی قیادت میں سیسہ پلائی دیوار بننا ہوگا اورپیپلزپارٹی کو بھی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوں گے۔ تحریک طالبان سمیت دیگر کئی تنظیمیں کالعدم قرار دی جا چکی ہیں ۔ حالانکہ اس قبل قبائلی علاقوں میں بسنے والے یہی لوگ محب وطن سنجھے جاتے تھے ۔ چنانچہ وزیراعظم نے کہاہے کہ وہ گمراہ عناصر کو قومی دھارے میں لاناچاہتے ہے۔ وہ تحریک طالبان سمیت تمام کالعدم اورعسکری تنظےموں کومذاکرات کی میز پرلا کر اور ملک کی عسکری قیادت سمیت قومی سیاست دانوں کو ساتھ بٹھا کر ان تنظےموں کے ارکان کیلئے ساز گار ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے خالاف ہونے والے ڈرون حملوں کا جواز ختم کیا جائے ۔