مکرمی! اللہ پاک نے یہ پاک سرزمین ہمیں انعام میں عطا فرمائی ہے۔ مگر ہم کیسے انعام یافتہ ہیں کہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونا ہماری خود کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ کیا اب پھر کوئی اقبالؒ آئے اور ہمیں خواب غفلت سے جگائے کیا۔ اندر باہر جو افراتفری ہے ہماری اپنی پھیلائی ہوئی ہے۔ ہم میں صبر ختم ہو چکا ہے۔ ایک وقت تھا لوگ دال روٹی کھاتے حتیٰ کہ چٹنی سے روٹی کھاتے بھی سکون کی نیند سوتے تھے۔ دیکھا جائے تو ہماری زندگی میں بہت ساری سہولتیں موجود ہیں مگر ہم نہ شکرے ہوتے جا رہے ہیں۔ خود کو مار دینا یعنی خود کشی کر لینا ایک عام بات بنتی جا رہی ہے۔ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ آج کی عورت کی زندگی میں آسانی ہے مگر صبر کی کمی ہے۔ عورت ہی عورت کی دشمن ہے ان بہنوں کی شادی نہ ہونے کی وجہ صرف غربت ہی نہ تھی۔ ہمارے سماجی نظام کی بے حسی بھی ہے۔ ہر ساس چاند سی بہو لانا چاہتی ہے قبول صورت بیٹیاں بابل کی چوکھٹ پر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ جہیز ایک لعنت ہے مگر اس سے بڑی لعنت معاشرتی بے حسی ہے جس نے بے بسی کو جنم دیا ہے۔ نیک شریف بیٹیوں کو چھوڑ کر امیر گھر کی بہو لانا چاہتا ہے۔ اچھی بیٹیوں کو صرف اس تفریق پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حکومت کو کیا کہا جائے اندھے کو تو کوئی راستہ دکھا دے مگر آنکھوں والے اور طاقت والے کون دکھائے۔(حمیرا محمود لاہور)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024